رسائی کے لنکس

جب اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حماس کے لیڈر کی جان بچائی


ستمبر 1997 میں خالد مشعل زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم ہی ان کی جان بچا سکتے تھے۔ (فائل فوٹو)
ستمبر 1997 میں خالد مشعل زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم ہی ان کی جان بچا سکتے تھے۔ (فائل فوٹو)

اردن کے ایک اسپتال میں حماس کے اہم ترین رہنما زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور زہر ان کے جسم میں پھیل چکا ہے۔ اس حالت میں صرف ایک شخص ان کی جان بچا سکتا ہے اور وہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو ہیں کیوں کہ ان ہی کے پاس اس زہر کا تریاق ہے۔

یہ منظر نامہ ستمبر 1997 کا ہے جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹس نے اردن کے دارالحکومت عمان میں مقیم فلسطینی عسکریت پسند رہنما خالد مشعل کو زہریلا اسپرے کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔

اسرائیل نے یہ کارروائی دراصل 30 جولائی 1997 کو یروشلم کی ماہانے یہودا مارکیٹ میں حماس کے خود کش حملے کے جواب میں کی تھی۔ اس حملے میں 16 افراد ہلاک اور 160 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اسرائیل اس حملے کے لیے خالد مشعل کو ذمے دار سمجھتا تھا۔

اسرائیلی اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق اسی کارروائی کا جواب دینے کے لیے 25 ستمبر 1997 کو اردن میں حماس کے اس وقت کے لیڈر خالد مشعل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس کارروائی کے بارے میں اسرائیل کا مؤقف تھا کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا حق رکھتا ہے۔

خالد مشعل کو حماس کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 1956 میں مغربی کنارے میں رملہ کے نزدیک سلواد کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ مشعل اپنے خاندان کے ساتھ 1967 میں کویت منتقل ہو گئے تھے جہاں انہوں نے مصر سے شروع ہونے والی اسلامسٹ تنظیم اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی۔

مشعل نے اپنی تعلیم بھی کویت میں مکمل کی اور کویت یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'الفتح' کے مقابلے میں اسلام پسند فلسطینوں کو منظم کیا۔ 1990 میں جب عراق اور کویت کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو خالد مشعل کویت سے اردن منتقل ہو گئے۔

وہ حماس کے آغاز ہی سے اس کے ساتھ رہے اور 1996 میں اس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ بن گئے۔ اردن میں جب موساد نے خالد مشعل کو نشانہ بنایا تو اس وقت خالد مشعل اسی عہدے پر تھے۔

غزہ کی پٹی؛ حماس سے پہلے اور حماس کے بعد
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

حملہ کیسے ہوا؟

موساد کے ایجنٹس نے خالد مشعل کو ہلاک کرنے کے لیے ایک ایسے زہر کا انتخاب کیا تھا جو صرف جلد پر لگنے سے چند گھنٹوں میں متاثرہ شخص کی موت کا سبب بن سکتا تھا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق موساد چاہتی تھی کہ یہ کارروائی کوئی قاتلانہ حملہ نظر نہ آئے۔ ایسا ظاہر کرنے کے لیے کارروائی کرنے والے دو ایجنٹس میں سے ایک کو سوڈا ڈرنک کا کین دیا گیا تھا جب کہ دوسرے ایجنٹ نے ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی اور اس کے اندر وہ ڈیوائس چھپا رکھی تھی جس سے زہریلا مواد خالد مشعل پر اسپرے کیا جانا تھا۔

اس پوری کارروائی کو ایک حادثہ یا معمولی واقعہ بنانے کے لیے یہ حکمتِ عملی بنائی گئی تھی کہ ایک ایجنٹ کین کھولے گا اور اس کے ساتھ جس ایجنٹ کے ہاتھ کی پٹی میں ڈیوائس چھپی ہے وہ اس سے زہر اسپرے کردے گا۔ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اس طرح کین کھلنے کی آواز سے اسپرے کا اندازہ نہیں ہو پائے گا اور یہ ایک معمول کا واقعہ لگے گا۔ لیکن کارروائی والے دن دو ایسے واقعات ہوئے جس کے باعث سارا منصوبہ ہی چوپٹ ہو گیا۔

خالد مشعل جب دفتر جانے کے لیے کار سے نکلے تو موساد کے ایجنٹ ان کی تاک میں کھڑے تھے۔ دفتر کے باہر ان افراد کو دیکھ کر خالد مشعل کے باڈی گارڈ کو پہلے ہی شک ہوگیا تھا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جیسے ہی ہاتھ پر پٹی والا ایجنٹ خالد مشعل کے کان کے قریب اسپرے کے لیے بڑھا تو خالد مشعل کی بیٹی نے کار میں سے انہیں آواز دی جس پر وہ پلٹ گئے۔ خالد مشعل کے اچانک اس طرح پلٹنے سے موساد کا دوسرا ایجنٹ گھبرا گیا اور اس سے ہاتھ میں پکڑا کین کھل نہیں سکا۔

ان دو افراد کی حرکت سے خالد مشعل کو فوری اندازہ ہو گیا کہ ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ان کے جسم پر ایک خراش تک نہیں آئی، بس کان کے پاس اسپرے کے بعد انہیں دھماکہ سا محسوس ہوا۔

اسی اثنا میں خالد مشعل کے گارڈ نے فوراً ایجنٹس پر جھپٹنے کی کوشش کی اور خالد مشعل اس جگہ سے کچھ آگے ضرور بڑھے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ان کی طبعیت بھی بگڑنا شروع ہو گئی۔ خالد مشعل کو اسپتال پہنچا دیا گیا جب کہ ان کے گارڈز اور اردن کی پولیس نے موساد کے دونوں ایجنٹس کو پکڑ لیا۔

اس مشن کے لیے موساد کے چھ ایجنٹس شناخت بدل کر اردن میں داخل ہوئے تھے۔ خالد مشعل پر حملہ کرنے والے دو ایجنٹس کے پکڑے جانے کے بعد دیگر ایجنٹس اردن میں اسرائیلی سفارت خانے میں جا کر روپوش ہو گئے۔

اسرائیلی ایجنٹس کی گرفتاری کے بعد خالد مشعل پر ہونے والا حملہ ایک سفارتی بحران کی شکل اختیار کر گیا جس نے خطے میں امن کے لیے جاری کوششوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے۔

صدر کلنٹن کی ثالثی سے ہونے والے اوسلو اکارڈز کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔
صدر کلنٹن کی ثالثی سے ہونے والے اوسلو اکارڈز کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔

ناکامی کا خوف

سابق امریکی عہدے دار اور صدر بل کلنٹن کے دور میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان امن عمل کے لیے کام کرنے والی ٹیم کے رکن بروس ریڈل کے مطابق 1990 کی دہائی کے دوران اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات کی کوششیں عروج پر تھیں۔ ان میں سب سے نتیجہ خیز کوشش 26 اکتوبر 1994 کو اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تھا۔

صدر کلنٹن کی ثالثی سے ہونے والے اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان 1967 کی دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد شروع ہونے والا سرحدی تنازع ختم ہو گیا تھا۔ معاہدے کے مطابق اردن کو 380 مربع کلو میٹر زمین اسرائیل سے واپس ملی تھی۔

اس معاہدے کو اردن اس لیے بھی اپنی بڑی کامیابی تصور کرتا ہے کیوں کہ اس کے مطابق معاہدہ تسلیم کرنے سے صیہونیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہو گیا کہ ’اردن ہی فلسطین‘ ہے۔

اس معاہدے کے بعد اردن میں اسرائیل کا سفارت خانہ کھلا اور دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم ہوئی تھی۔ لیکن اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے بھی طویل سفارتی کوششیں ہوئی تھیں۔

امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے لیے اپنے ایک مضمون میں بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ 1990 کی عراق کویت جنگ میں شاہ حسین کے صدام حسین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات شدید تناو کا شکار تھے۔

ادھر کلنٹن حکومت کی کوششوں سے اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات کے درمیان 1993 میں اوسلو معاہدے کی صورت میں ایک بڑی پیش رفت ہو گئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت پی ایل او نے مسلح جدوجہد ترک کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا جب کہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد تک مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی قائم کر دی گئی تھی۔

بروس ریڈل کے مطابق اوسلو معاہدے کے مذاکرات کے لیے پس پردہ کوششوں کے بارے میں اردن کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ اردن یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے نگران کے طور پر خود کو اس تنازع کا اہم فریق تصور کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شاہ حسین اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے خود کو دو رکھنے پر خفا تھے۔

تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق رابین نے ستمبر 1993 ہی میں موساد کے ڈپٹی ڈائریکٹر افراہیم ہالوی کے ذریعے شاہ حسین سے رابطہ کر کے اوسلو مذاکرات میں پیش رفت سے متعلق انہیں آگاہ رکھنے کے لیے رابطہ قائم کر لیا تھا۔ بروس ریڈل کے بقول، ہالوی اسرائیل اور شاہ حسین کے درمیان رابطہ کاری کے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد بیک چینل تصور ہوتے تھے۔

مبصرین کے نزدیک 26 اکتوبر 1994 کو اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ہونے والی سب سے زیادہ نتیجہ خیز کوشش تھی۔
مبصرین کے نزدیک 26 اکتوبر 1994 کو اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ہونے والی سب سے زیادہ نتیجہ خیز کوشش تھی۔

بروس ریڈل کے مطابق اوسلو کے بعد شاہ حسین اور ان کے بھائی اور ولی عہد حسن بن طلال کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے رابطے ان کے لیے بھی ایک اچھا موقع ہیں۔

ساتھ ہی شاہ حسین عراق کویت جنگ کے بعد امریکہ سے خراب ہونے والے تعلقات کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے افراہیم ہالوی کے ذریعے بات چیت آگے بڑھائی اور اسرائیل کے امن معاہدے پر پہنچنے کے لیے کام شروع کردیا۔ ان کے خیال میں اسرائیل سے تعلقات کی بہتری کی صورت میں ان کے بل کلنٹن حکومت سے تعلقات بھی بہتر ہو سکتے تھے۔

شاہ حسین ان کوششوں میں امریکی تائید حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور انہوں نے امریکہ سے اقتصادی اور دفاعی مراعات بھی حاصل کیں اور بالآخر 26 اکتوبر کو شاہ حسین اور اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق رابین نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس پس منظر کی وجہ سے امریکہ، اردن اور اسرائیل تینوں ہی اردن اسرائیل امن معاہدے کو اپنی کامیابی تصور کرتے تھے۔

درجۂ حرارت بڑھنے لگا

اسرائیل سے امن معاہدہ ہونے کے تین برس بعد خالد مشعل کی خفیہ کوشش تک، تقریباً تین برسوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ شاہ حسین اسرائیل میں اسحاق رابین کو امن میں اپنا شراکت دار سمجھتے تھے جو معاہدے کے اگلے ہی برس قتل ہو گئے تھے۔ رابین کے بعد اسرائیل میں بن یامین نیتن یاہو کی حکومت بن چکی تھی جن کے ساتھ شاہ حسین کا ماضی میں ورکنگ ریلیشن نہیں رہا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ جب خالد مشعل پر حملے کے بعد شاہ حسین نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اردن اسرائیل معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے والے اسرائیلی عہدے دار افراہیم ہالوی کو فوری اسرائیل طلب کیا۔ افراہیم ہالوی اس وقت یورپی یونین میں اسرائیل کے سفیر تھے۔

گزشتہ برس ٹائمز آف اسرائیل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں افراہم ہالوی نے بتایا کہ موساد کی کارروائی پر شاہ حسین آگ بگولہ تھے کیوں کہ وہ اسے اپنی تضحیک سمجھتے تھے اور انہیں یہ احساس تھا کہ اس کارروائی سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ اس کارروائی کو اردن کی تائید حاصل تھی۔ انہیں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ اسرائیل کے اس اقدام سے یہ پیغام گیا ہے کہ جیسے اردن کوئی غیر اہم اور کمزور ملک ہے جہاں کوئی بھی اپنی مرضی سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ شاہ حسین نے واضح کر دیا تھا کہ اگر خالد مشعل زندہ نہیں رہے تو ان کی زیرِ حراست اور سفارت خانے میں روپوش اسرائیلی ایجنٹس بھی نہیں بچیں گے۔ وہ ان ایجنٹس کے خلاف کارروائی کا اعلان کر چکے تھے۔

اسرائیل کو یہ خدشہ تھا کہ خالد مشعل کی موت کی صورت میں اگر اس کے ایجںٹس کے خلاف مقدمہ چلا کر انہیں موت کی سزا ہوئی تو اسے بین الاقوامی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسرائیل فلسطین تنازع: دو ریاستی حل کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:58 0:00

امریکی جریدے ٹائم کے مطابق اس وقت کے صدر بل کلنٹن کو خدشہ تھا کہ کہیں اس بحران کی وجہ سے اردن اور اسرائیل کا امن معاہدہ ختم نہ ہوجائے۔ وہ عرب اسرائیل مذاکرات میں پیش رفت کو اپنی حکومت کی بڑی کامیابی تصور کرتے تھے اور اسے بچانا چاہتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بھی خالد مشعل کی جان بچانے کے لیے نیتن یاہو پر اس زہر کا تریاق فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جو حملے میں ان پر اسپرے کیا گیا تھے۔

ہالوی کے مطابق ان حالات کو دیکھتے ہوئے نیتن یاہو نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ اردن کے دارالحکومت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا خالد مشعل کی جان بچانے کے لیے زہر کا تریاق اور طبی معاونت فراہم کی جائے۔

حملے کے چوتھے روز خالد مشعل کو اسرائیل کی جانب سے زہر کا تریاق فراہم کر دیا گیا جس کے بعد ان کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس بحران کے مزید سنگین ہونے کا فوری خطرہ تو ٹل گیا لیکن اب اسرائیل کے سامنے اپنے ایجنٹس کو اردن سے صحیح سلامت واپس لانے کا چیلنج تھا۔

افراہیم ہالوی کو شاہ حسین اور اسرائیل کے درمیان قابلِ اعتماد بیک چینل رابطہ کار سمجھا جاتا تھا۔
افراہیم ہالوی کو شاہ حسین اور اسرائیل کے درمیان قابلِ اعتماد بیک چینل رابطہ کار سمجھا جاتا تھا۔

شاہی رحم

وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی ایجنٹس کو اردن سے واپس لانے کی ذمے داری افراہیم ہالوی کے سپرد کی۔ انہوں نے اردن جانے سے قبل وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا کہ خیر سگالی کے طور پر حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کو رہا کر دیا جائے۔ نیتن یاہو نے ابتدائی طور پر یہ تجویز مسترد کردی لیکن حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے انہوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کر دی۔

افراہیم ہالوی کے مطابق وہ جب شاہ حسین سے ملے تو وہ بہت غصے میں تھے۔ جیسے ہی انہوں نے اردن کے فرماں روا کو شیخ یاسین کی رہائی کے اقدام کے بارے میں بتایا تو ان کی برہمی کم ہونے لگی۔

لیکن جیسے ہی گفتگو کا رُخ موساد کے زیر حراست ایجنٹس کی طرف ہوا تو شاہ حسین نے کہا کہ وہ پولیس کے پاس ہیں اور چار اسرائیلی سفارت خانے میں چھپے ہیں۔ فوج نے سفارت خانے کا محاصرہ کر لیا ہے اور کسی بھی وقت ان ایجنٹس کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

ہالوی کہتے ہیں کہ اردن کے فرماں روا کے اس جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ امن معاہدہ ہونے کے صرف تین برس بعد خالد مشعل کو ہلاک کرنے کی کوشش نے حالات کو کس نہج پر پہنچا دیا تھا۔

تاہم افراہیم ہالوی نے اپنے پرانے دوست کو رضامند رکھنے کی کوشش جاری رکھی اور کہا کہ اگر وہ ان کی جگہ ہوتے تھے ’شاہی رحم‘ کا مظاہرہ کرتے۔ اس پر شاہ حسین نے ہالوی کو دیکھا اور کہا کہ ’شاہی رحم‘ سے ان کی کیا مراد ہے جس پر ہالوی نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ’’میں اگر بادشاہ ہوتا تو مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اس سے کیا مراد ہوتا ہے۔ـ‘‘

اس کے بعد شاہ حسین تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہے اور افراہیم ہالوی سے کہا کہ تم سفارت خانے سے اپنے ایجنٹس کو واپس لے جا سکتے ہو۔

اور اس کے بعد ۔۔۔

خالد مشعل صحت یاب ہونے کے بعد حماس کے سیاسی سربراہ بنے۔ بعد ازاں اردن کے شاہی خاندان کے ساتھ حماس کی قیادت کے تعلقات خراب ہو گئے جس کی وجہ سے خالد مشعل شام منتقل ہو گئے۔ 2004 میں جب حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین اسرائیل کے حملے میں ہلاک ہو گئے تو خالد مشعل تنظیم کے سربراہ بن گئے۔

جنوری 2012 میں صدر بشار الاسد کی اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں پر احتجاج کرنے کی وجہ سے خالد مشعل کو قطر منتقل ہونا پڑا۔ اسی برس حماس کے قیام کو 25 برس مکمل ہونے پر وہ 45 برس بعد پہلی مرتبہ غزہ پہنچے جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کا اعلان کیا۔

خالد مشعل نے 2017 میں حماس کے پولیٹیکل بیورو کی سربراہی سے استعفی دے دیا جس کے بعد اسماعیل ہنیہ نے یہ ذمے داری سنبھال لی۔ تاہم خالد مشعل کو آج بھی تنظیم کے با اثر ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو حماس کے مطلوب ترین رہنماؤں کی کوئی بھی فہرست خالد مشعل کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

بعد کے برسوں میں خالد مشعل نے دو ریاستی حل کے لیے حمایت کا اظہار بھی کیا۔ تاہم ان کے بارے میں مبصرین کی رائے تقسیم ہے کہ وہ اب بھی اپنے ابتدائی دور کی طرح ایک سخت گیر لیڈر ہیں یا وقت کے ساتھ ساتھ ان میں عملیت پسندی آئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG