جب تیونس، مصر، اردن اور یمن کے عوام حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئےتو تیونس کے صدر نے ملک چھوڑ دیا، مصر میں صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ کے لیے عوامی احتجاج جاری ہے۔ اردن میں شاہ عبدالله نے حکومت معطل کر کے اپوزیشن سے بات چیت کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یمن کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مدتِ صدارت پوری کر کے دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔ ان سب ملکوں میں ایک اور چیز بھی مشترک ہے وہ یہ کہ یہ چاروں ملک امریکہ کے اتحادی ہیں۔
کلفورڈ مے کا تعلق واشنگٹن فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو ایسے حکمرانوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جنہیں ان کے اپنے لوگ رد کر چکے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ اگر کسی چیز کے لیے آواز اٹھاتا ہے تو وہ ہے آزادی اور جمہوریت ۔ اور جمہوریت کا مطلب ہے کہ وہ جو ملک چلا رہے ہیں وہ حاکم نہیں راہنما ہیں۔ انہیں ان کے لوگوں نے منتخب کیا ہو۔ میر اخیال ہے امریکی چاہے وہ ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلیکنز وہ ایسی حکومت اور ادارے دیکھنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے مشرقِ وسطی کے لوگ خود اپنے راہنماوں کا انتخاب کریں۔
کلفورڈ کہتے ہیں کہ امریکہ کو مشرقِ وسطی میں اپنے اتحادیوں کی سیاسی اپوزیشن سے بھی بات کرنی چاہیے اور یہ واضح کرنا چاہیے کہ مشرقِ وسطی میں امریکہ کے مفادات وہی ہیں جووہاں کے ایک عام آدمی کے ہیں۔ امریکہ کو یہ بتانا چاہیے کہ امریکی مفادات ہر اس شخص کی سوچ سے ملتے ہیں جو غربت سے نکلنا چاہتا ہے۔ جو اس ڈر کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے کہ اس پر تشدد ہوگا اسے قید یا ہلاک کر دیا جائے گا۔ وہ جو مذہبی آزادی چاہتے ہیں۔ وہ جو پر امن مقاصد کے لیے جمع ہونا چاہتے ہیں۔ یا وہ جو صحافتی آزدی کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مصر میں صدر حسنی مبارک کے بعد انتخابات کے ذریعے جو بھی حکومت بنی وہ کسی ایک جماعت کی اکثریت سے نہیں بنے گی البتہ اخوان المسلمین ایوان کی 30 سے35 فیصد نشستیں جیت سکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق ایسی صورت میں بھی امریکہ اور مصر تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔
ایلن ایلزنر کا واشنگٹن میں ایک تھینک ٹینک دی اسرائیل پراجیکٹ سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر کےبھی مفادات ہیں جو امریکہ سے وابسطہ ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں حکومت کس کی ہے۔ امریکہ کے ساتھ مصر کاا تحاد ان کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔ ملک میں استحکام کے لیے، اور سیاحت کے لیے کیونکہ سیاحت ان کے جی ڈی پی کا دس فیصد ہے۔
مشرقِ وسطی میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف عوامی احتجاج سے امریکہ میں جہاں ایک طرف خطے کا استحکام بگڑنے کے بارے میں خدشات پائے جا رہے ہیں وہیں اتحادی ملک اسرائیل کی سیکورٹی کے بارے میں ملے جلے خیالات پائے جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطی کے جن چار ممالک میں عوامی تحریکیں چل رہی ہیں ان میں دو یعنی مصر اور اردن کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے۔
ایلزنر کہتے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات استوار رکھنے کے لیے مصر کو اسرائیل امن معاہدے کا احترام کرنا پڑے گا۔ مگر وہ مانتے ہیں کہ کوئی اور حکومت آنے کی صورت میں مصر اور اسرائیل کی فوج کے درمیان غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لیے تعاون ختم ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ اور اسرائیل مصر کی کسی بھی ایسی جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں جو ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی شرائط کی پاسداری کرے کیونکہ یہ عالمی تعلقات میں بہت اہم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معاہدوں سے مکر جائے۔ ایسی صورت میں عالمی تعلقات چلانا ناممکن ہو جائے گا۔
مشرقِ وسطی کی اس صورتِ حال پر صدر اوباما کو دوہرے چیلنج کا سامنا ہے ۔ صدر حسنی مبارک کے لیے سخت رویہ نہ اپنانے پر اپنے ملک میں بعض حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہورہی ہے تو دوسری طرف اتحادی ملک اسرائیل میں صدر حسنی مبارک جیسے اسرائیل دوست اتحای کی حمایت نہ کرنے پربھی اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔