بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے نئے صدر کا انتخاب پارٹی کے سینئر رہنما ملک ارجن کھرگے نے جیت لیا ہے۔ اس طرح کانگریس کی صدارت 24 برس بعد کسی غیر گاندھی خاندان کے سیاسی رہنما کے سپرد ہو گئی ہے۔
کانگریس کے نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے پیر کو نئی دہلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ووٹنگ ہوئی۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں نو ہزار 915 اہل قائدین میں سے لگ بھگ 96 فی صد نے ووٹ کاسٹ کیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق کھرگے نے سات ہزار 897 جب کہ اُن کے مدِمقابل کانگریس رہنما ششی تھرور نے 1072 ووٹ حاصل کیے۔
کانگریس کی 137 سالہ تاریخ میں صدارت کے لیے چھٹی مرتبہ انتخابات ہوئے اور یہ 24 برس میں پہلی مرتبہ ہے کہ صدارت کے لیے جو امیدوار مدِمقابل تھے ان کا تعلق گاندھی نہرو خاندان سے نہیں تھا۔
ششی تھرور نے ملک ارجن کھرگے کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ کانگریس کا صدر ہونا وقار کی بات ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ کھرگے اپنی اس ذمہ داری سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوں گے۔
دھاندلی کے الزامات
ووٹوں کے گنتی کے دوران ششی تھرور کے حامیوں نے اترپردیش میں ووٹنگ میں دھاندلی کا الزام لگایا اور مطالبہ کیا کہ اترپردیش کے تمام ووٹ منسوخ قرار دیے جائیں۔
لیکن ششی تھرور نے ایک ٹویٹ میں ایک اندرونی خط کے لیک ہو جانے پر اظہار افسوس تو کیا تاہم یہ بھی کہا کہ یہ الیکشن پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے ہوا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ملک ارجن کھرگے راجیہ سبھا کے رکن اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف ہیں لیکن کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد انہوں نے ایک شخص ایک عہدہ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
بھارتی خبر رساں ادارے 'این ڈی ٹی وی' کی رپورٹ کے مطابق ایک طویل عرصے سے کانگریس کے ساتھ وابستہ ملک ارجن کرگھے کو گاندھی خاندان کا وفادار سمجھا جاتا ہے۔
لیکن ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ کرگھے کی جیت کے باوجود پارٹی کا ریموٹ کنٹرول گاندھی خاندان کے پاس ہی ہو گا۔
SEE ALSO: بھارت: تین دہائیوں میں پہلی بار کانگریس کا سربراہ گاندھی خاندان سے نہیں ہوگاالبتہ کانگریس اس امکان کو مسترد کرتی ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری انچارج آف کمیونیکیشن جے رام رمیش نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ناقدین کی جانب سے اس طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ دو اہل لوگوں کا مقابلہ ہوا اور صاف اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
'پارٹی میں تبدیلیوں کے فیصلے گاندھی خاندان کو ہی کرنے ہیں'
سینئر تجزیہ کار اور بھارت کی سیاسی جماعتوں کے موضوع پر ایک کتاب کے مصنف اکو سریواستو کا کہنا ہے کہ اب جب کہ ملک ارجن کھرگے پارٹی صدر منتخب ہو گئے ہیں تو یہ گاندھی خاندان پر منحصر ہے کہ وہ پارٹی میں تبدیلی چاہتے ہیں یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ کھرگے ربر اسٹیمپ بننے کے لیے تیار ہیں۔ اصل ذمہ داری گاندھی خاندان پر ہو گی۔ اگر سونیا اور راہل پارٹی کو بدلنا چاہتے ہیں تو کھرگے کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب اہم عہدوں پر تقرر کے بجائے انتخاب ہو۔ پارٹی کی اعلیٰ فیصلہ ساز باڈی کانگریس ورکنگ کمیٹی میں خالی ضروری ارکان کا تقرر ہو۔
ان کے مطابق اگر ششی تھرور کی صلاحیتوں کا استعمال کانگریس میں اچھی تبدیلی کے لیے ہوتا ہے تو یہ اچھی بات ہو گی۔ اگر پارٹی کے اندر ششی تھرور کو کوئی اہم ذمہ داری ملتی ہے اور انہیں الگ تھلگ نہیں کیا جاتا ہے تو وہ پارٹی کو منظم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
ایک اور تجزیہ کار اے یو آصف بھی تقریباً انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ کانگریس پارٹی میں صدر کے عہدے کا انتخاب ہوا ہے لیکن اس انتخاب سے پارٹی کو کیا اور کتنا فائدہ ہوگا اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے مطابق اگر ششی تھرور کامیاب ہوئے ہوتے تو وہ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بدل دیتے اور جیسا کہ وہ کہتے رہے ہیں نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک تمام عہدوں پر الیکشن کے ذریعے تقرر ہوتا۔ لیکن اب جب کہ وہ شکست کھا گئے ہیں تو ان کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک ارجن کھرگے ایک سینئر رہنما ہیں۔ ان کا سیاسی سفر 50 برس پر محیط ہے۔ وہ ایک تجربہ کار لیڈر ہیں۔ مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف رہے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں گاندھی خاندان کا اعتماد حاصل ہے۔ لہٰذا ان سے ہمیں اچھی توقع رکھنی چاہیے۔
ملک ارجن کھرگے کون ہیں؟
اسی سالہ ملک ارجن کھرگے 10 مرتبہ بھارتی ریاست کرناٹک اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں جب کہ وہ تیسری مرتبہ رُکنِ پارلیمان منتخب ہوئے۔
کرناٹک کے علاقے گلبرگ سے تعلق رکھنے والے کھرگے کو پہلے بھی پارٹی میں اہم مقام حاصل تھا۔ جب بھی پارٹی کسی بحران میں مبتلا ہوئی انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اسے بحران سے نکالا۔
وہ ایک سنجیدہ سیاست داں مانے جاتے ہیں۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے۔ انہوں نے پہلی بار 1972 میں کرناٹک کے گورمیتکل اسمبلی حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ کرناٹک کی کانگریس حکومت میں وزیر بھی رہے۔ 2005 میں انہیں کرناٹک کانگریس کا صدر نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کھرگے کا بچپن اپنے آبائی گاؤں وروتّی ضلع بیدر میں انتہائی تنگ دستی میں گزرا۔ اس وقت وہ علاقہ نظام حیدرآباد کے زیر حکومت تھا۔
وہ سات سال کے تھے کہ اس وقت وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں ان کی والدہ اور خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے نے ان لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور ان کا خاندان گلبرگہ میں جا کر بس گیا۔ اس شہر کو اب کلبرگی کہا جاتا ہے۔
ان کی اہلیہ کانام رادھا بائی کھرگے ہے۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے پریانک کھرگے بھی سیاست میں ہیں اور کرناٹک کے کلبرگی ضلعے کے چتّاپور اسمبلی حلقے سے دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔
سال 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں جب کہ بی جے پی کو زبردست عوامی حمایت حاصل تھی انہوں نے گلبرگ پارلیمانی حلقے میں بی جے پی کے امیدوار کو 13000 سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔
لیکن وہ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں شکست کھا گئے تھے۔ 2020 میں انہیں کرناٹک سے راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا گیا۔ 2021 میں انہیں ایوان بالا میں حزب اختلاف کا قائد مقرر کیا گیا۔
مبصرین کے مطابق ملک ارجن کھرگے اور ششی تھرور کے خیالات میں بہت فرق ہے۔ دونوں الگ الگ سیاسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن دونوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ پارٹی میں اس انتخاب سے قبل سال 2000 میں صدارتی انتخاب ہوا تھا۔ جس میں سینئر رہنما جتیندر پرساد نے سونیا گاندھی سے مقابلہ کیا تھا۔ جتیندر پرساد کو زبردست شکست ہوئی تھی۔ سونیا گاندھی کو 7400 ووٹ ملے تھے جب کہ جتیندر پرساد کو محض 94 ووٹ حاصل کرپائے تھے۔
سونیا گاندھی کو 1998 میں پارٹی کا صدر نامزد کیا گیا تھا جس کے بعد وہ 2017 تک اس منصب پر فائز رہیں۔ ان کی سربراہی میں کانگریس پارٹی 2004 اور 2009 کے پارلیمانی انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جب کہ دونوں بار سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیرِ اعظم کے عہدے کے منصب کے لیے چنا گیا۔
سونیا گاندھی کے بیٹے راہل گاندھی کو 2017 میں کانگریس پارٹی کا صدر نامزد کیا گیا تھا البتہ انہوں نے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی بری طرح شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد سونیا گاندھی کو قائم مقام صدر نامزد کیا گیا تھا۔
بھارت میں کانگریس واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں صدر کا انتخاب ڈیلی گیٹس یا مندوبین کرتے ہیں۔ اس کے لیے بیلٹ پیپر سے خفیہ رائے شماری ہوتی ہے۔
کانگریس پارٹی کے سیکریٹری انچارج مواصلات جے رام رمیش کے مطابق اس انتخاب کی تاریخی اہمیت ہے۔ اس سے قبل 1939، 1950، 1977، 1997 اور 2000 میں ڈیلی گیٹس کے ووٹوں سے پارٹی صدر کا انتخاب کیا گیا تھا۔
جے رام رمیش کے مطابق کانگریس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں بیلٹ پیپر سے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ دوسری کوئی اور پارٹی اپنے صدر کا اس طرح انتخاب نہیں کرتی، وہاں صرف نامزدگی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ کانگریس میں بیش تر مواقع پر اتفاق رائے سے صدر کا انتخاب ہوتا رہا ہے۔