امریکہ کی ریاست آرکنسا نے ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت اسقاطِ حمل پر ہر طرح کی پابندی عائد ہو گی، حتیٰ کہ ریپ کے بعد حاملہ ہونے والی خواتین بھی حمل ضائع نہیں کرا سکیں گی۔
اس قانون کی منظوری کے بعد اس کے حامی یہ توقع کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی 1973 کے اس حکم نامے پر نظر ثانی کرے گی جس میں قانونی طریقوں سے اسقاطِ حمل کی اجازت دی گئی تھی۔
قدامت پسند سمجھی جانے والی ریاست آرکنسا کے گورنر ایسا ہچینسن کا کہنا ہے کہ قانون میں صرف اس صورت میں اسقاطِ حمل کی اجازت ہو گی جس میں ایمرجنسی کی صورت میں خاتون کی زندگی بچانا مقصود ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی موجودہ قوانین پر دی گئی اپنی رولنگ پر نظرِثانی کرے۔
آرکنسا میں منظور کیے جانے والا یہ قانون موسمِ گرما سے قبل نافذ العمل نہیں ہو گا۔ البتہ 'امریکنز سول لبرٹیز یونین' نامی شہری حقوق کی تنظیم نے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسقاطِ حمل کے قوانین کے معاملے پر امریکی معاشرہ تقسیم کا شکار رہا ہے۔ قدامت پسند حلقے اس کی ممانعت پر زور دیتے رہے ہیں جب کہ بعض لبرل اور روشن خیال طبقات اس کی اجازت کے حامی رہے ہیں۔
گزشتہ برس امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایمی کونی بیرٹ کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججز کی تعداد تین کے مقابلے میں چھ ہو گئی ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر اسقاطِ حمل سے متعلق 1973 کی رولنگ کو بدل سکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال جنوری کی 24 تاریخ کو اسقاطِ حمل کی مخالف تنظیمیں اور خواتین ریلی نکالتی ہیں۔
اسقاطِ حمل کے مخالفین کا یہ مؤقف ہے کہ اس نہ صرف انسانی زندگیاں ضائع ہوتی ہیں بلکہ اس سے کئی خاندان بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔