پاکستان کی فوج کی جانب سے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت رکھنے والی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے 20 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
بارہ اکتوبر 1999 کی شام اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی بیرون ملک موجودگی کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں ہٹا کر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔ تاہم فوج نے بغاوت کر دی اور نواز شریف حکومت کو فارغ کر کے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ 1999 سے لے کر 2002 تک ملک کا نظم و نسق فوج کے پاس ہی رہا۔ پرویز مشرف نے 2002 میں عام انتخابات کروائے لیکن اس کے بعد وجود میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت کو بھی فوج کے زیراثر ہی سمجھا جاتا رہا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران ملک میں جمہوری نظام بحال بھی ہوا تاہم اب بھی ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
'جمہوریت کا مطلب جمہوری اداروں کا مضبوط ہونا ہے'
پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کو 20 سال مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے سیاسی اور جمہوری نظام کے بارے میں تجزیہ کار مختلف آرا رکھتے ہیں۔
سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حقیقی جمہوریت سے مراد جمہوری اداروں کا مضبوط ہونا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صرف الیکشن کا انعقاد جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت کا استحکام جمہوری اداروں کی مضبوطی پر منحصر ہوتا ہے اور یہ ایک تسلسل کا نام ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ریاستی امور میں فوج کا عمل دخل رہا ہے۔ اورماضی میں خود فوج چار مرتبہ براہ راست اقتدار سنبھال چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کی بار بار مداخلت کے باعث پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی۔
کیا فوج اور حکومت ایک ہی پیج پر ہو سکتے ہیں؟
سینئر تجزیہ کار عادل نجم کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ فوج ہی طاقت ور ادارہ ہے تو یہ سیاسی حکومتوں کی کمزوری کی نشانی ہے۔ ان کے بقول فوج اور حکومت کے ایک ہی صفحے پر ہونے کی بات مضحکہ خیز ہے۔ آئین کے تحت دونوں کا الگ الگ کردار متعین کیا گیا ہے۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جمہوریت کے علمبردار ممالک میں بھی فوج کا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے۔
سینئر صحافی اور ڈان اخبار لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اشعر رحمن کا کہنا ہے کہ مشرف دور کے حالات کا آج کے حالات سے دلچسپ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے موجودہ نظام میں فوج اور حکومت کی مثالی قربت ہے اور ایسی ساجھے داری کے خواہاں ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ اشعر رحمن کے بقول تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میں آئی ہے لہذٰا اس کا فوجی قیادت پر بڑھتا ہوا انحصار بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ ملکی معاملات میں فوج کا عمل دخل ہر ملک میں ہوتا ہے لیکن یہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے بقول موجودہ حکومت پر یہ تنقید تو کی جاتی ہے کہ یہ فوج کی مدد سے اقتدار میں آئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 2018 کے انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ بھی دیے۔
اصل مسئلہ اختیارات کا ہے
اشعر رحمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک منظم انداز میں سیاست دانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کرپشن سب سے بڑا مسئلہ اور اس کے ذمہ دار صرف سیاست دان ہیں۔ ان کے بقول فوج اور سول قیادت کے درمیان اصل مسئلہ اختیارات کا ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوری اقدار کا فقدان ہے۔ جب کہ فوج جب بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹتی ہے تو سیاسی جماعتوں کے اندر سے ہی سیاست دان اس کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں جمہوریت کا مطلب جمہوری اقدار کا پروان چڑھنا ہے۔ جہاں اظہار رائے کی آزادی ہو اور اختلافِ رائے کو بھی برداشت کیا جائے۔
مبصرین اتفاق کرتے ہیں کہ جمہوریت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس میں سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔