پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق امریکہ میں جو بیان دیا وہ سنگین نوعیت کا ہے۔ اگر اس معاملے پر کسی نے انہیں بریفنگ دی ہے تو پارلیمنٹ کو اس پر بات کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی اطلاع پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے امریکہ کو دی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے عمران خان کے دعوے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اُس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے بریفنگ دی تھی۔
اسحاق ڈار کے بقول پارلیمنٹ کو بریفنگ کے دوران فوج کی اعلیٰ قیادت نے کہا تھا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھی اور آئی ایس آئی چیف نے اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا جسے منظور نہیں کیا گیا تھا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکہ میں سنگین بیان دے کر عمران خان نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے اور یہ ان کی عادت ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے بیان دے دیتے ہیں، اگر وہ سچے ہیں اور اُنہیں کسی نے بریفنگ دی ہے تو یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور پارلیمنٹ کو اس پر بات کرنی چاہیے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان کا بیان سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر کسی دوسرے ملک میں اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں تو آپ مقبول تو ہو جاتے ہیں لیکن یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان کشمیر اور افغانستان میں تربیت لینے والے 35 سے 40 ہزار انتہا پسندوں کی پاکستان میں موجودگی کی بات کرتے ہیں۔ حیران ہوں کہ جو دستاویزات پاکستان نے شیئر کی ہیں اس میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آٹھ ہزار انتہا پسندوں کا ذکر ہے۔
وزیر اعظم پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان پانچ سال تک چار حلقوں اور 35 پنکچر کے بیانیے پر سیاست کرتے رہے اور جب عدالت نے کمیشن بنایا اور انتخابات کو شفاف کہا تو عمران خان نے ڈھٹائی سے اسے سیاسی بیانیہ قرار دیا اور اب یہ کرپشن اور قرضوں کا بیانیہ لے آئے ہیں۔
اسحاق ڈار نے سوال کیا کہ موجودہ حکومت عوام کی زندگی کہاں لے آئی، مہنگائی کہاں پہنچ چکی ہے۔
روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمارے لوگوں نے پاکستان کے ساتھ ظلم کیا ہے، ہم فیڈرل ریزرو، بینک آف انگلینڈ یا یورپین بینک نہیں ہیں کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ڈی ویلویشن کسی ملک کی معیشت کے لیے تباہی کی بنیاد ہے، ملک میں مہنگائی دو گنی ہوگئی، شرح سود ہم نے چھ اعشاریہ دو پانچ کی سطح پر چھوڑا جو بڑھ کر تیرہ اعشاریہ دو پانچ کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اسحاق ڈار اس وقت لندن میں موجود ہیں اور پاکستان آ کر مقدمات کا سامنے کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اُن پر قائم کردہ مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں۔
اُن کے بقول " ڈان لیکس اور پاناما لیکس کی جے آئی ٹی میں جو دو بریگیڈیئر تھے انہوں نے اُن پر الزام عائد کیا کہ میں نے 20 سال تک ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کیے، اگر میں نے ٹیکس نہیں دیا تو مجھے ڈی چوک میں گولی مار دینی چاہیے، اگر میں نے ریٹرن دیے ہیں تو پوری جے آئی ٹی کو دوبارہ دیکھیں۔"
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ پاکستان میں اب تک مجھے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا، جب انصاف نظر آئے گا تو اپنا میڈیکل مکمل کر کے پاکستان چلا جاؤں گا۔