چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کےبیٹے ارسلان افتخار کا بدعنوانی سے متعلق مقدمہ عدالت عظمیٰ میں آنے کے بعدجہاں گزشتہ دو، تین دن سےپاکستانی میڈیا میں اس پر نئی بحث چھڑگئی ہے وہیں اس معاملے نےملک کے تینوں ستونوں کو بھی ہلا دیا ہے۔عدلیہ، پارلیمنٹ، فوج اور خود میڈیا پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ معاملہ ہے کیا اور آگے کیا صورت اختیارکرے گا۔ آیئے اس حوالے سے مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے سے تمام پہلووٴں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
ارسلان افتخار پر لگائے گئے الزامات
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان چوہدری پر ملک میں صف اول کی کارروباری شخصیات میں سے ایک ملک ریاض نے الزام عائد کیا ہے کہ دوہزار نو سے دو ہزار بارہ کے شروع تک ارسلان نے ان سے 36کروڑ روپے سے زائد کے مالی فوائد حاصل کیے ۔ ملک ریاض نے یہ سارے الزامات میڈیا سے وابستہ چند سینئر صحافیوں کے گوش گزار کئے۔ ان میں سے ایک نام جیو ٹی وی کے اینکر کامران خان کا بھی ہے جو عدالت میں بھی پیش ہوئے۔
ملک ریاض نے صحافیوں کوارسلان کے پاسپورٹ کی کاپیاں بھی دکھائیں اوربتایا کہ ارسلان جب بیرون ملک فیملی کے ساتھ جاتے تھے تو ان کو ایئر ٹکٹ بھی مہیا کیے جاتے تھے ۔ہوٹلوں کے بل ملک ریاض کے دامادسلمان ملک اور ان کی صاحبزادی کے کریڈیٹ کارڈ سے ادا ہوتے ۔ ارسلان نے تین کروڑ روپے نقد بھی لیے ۔ اس حوالے سے بھی صحافیوں کو کچھ کاغذات دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ ویڈیو بھی موجود ہے ۔
ملکی میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق ثبوتوں پر مشتمل ویڈیو مشہور غیرملکی صحافی کرسٹینا لیمب کو بھی رسائی حاصل ہے ۔ ویڈیو ثبوت لندن کے ایک لاکرمیں ہیں،ان کی انشورنس بھی ہو چکی ہے ۔ملک ریاض، ان کے دامادسلمان ملک اور کرسٹینا لیمب جب چاہیں ان ثبوتوں کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ ملک ریاض کے مطابق اس تمام مالی فوائد دینے کے عوض سپریم کورٹ میں ان کے خلاف مقدمات میں ریلیف حاصل کرنا تھا لیکن ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ انہیں ریلیف نہیں ملا ۔
چیف جسٹس کا از خود نوٹس
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے میڈیا پر اس حوالے سے بحث و مباحثہ کا از خود نوٹس لیا ۔ دوسری سماعت پر اٹارنی جنرل نے دوبارہ اعتراض کیا کہ وہ اپنے بیٹے کے کیس کی سماعت نہیں کر سکتے ، چیف جسٹس نے اس کے بعداپنے آپ کو سماعت سے الگ کر لیا ۔تاہم پہلی سماعت پر جب اعتراض کیا گیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہو گا۔
عدلیہ پر اثرات
مبصرین کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے کی بدعنوانی سے متعلق اطلاعات پرفوراً نوٹس لےکر ملکی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کی ہے ۔ اس کے بعد خود کوسماعت سے الگ ہوکر انہوں نے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کے تمام خدشات ختم کر دیئے کیونکہ اگر چیف جسٹس خود بینچ کے سربراہ ہوتے اور میرٹ پر بھی اپنے بیٹے کو رہا کرتے تو بھی بعض عناصر یہ تاثر دے سکتے تھے کہ فیصلہ جانبداری سے ہوا ۔
پارلیمنٹ پر اثرات
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بیٹے کا کیس آنے کے بعد پارلیمنٹرین کی جانب سے آنے والے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت ان کی اس کیس پر کڑی نظریں لگی ہیں ۔ عام تاثر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کےباربار حکم کے باوجود وزیراعظم نے صدر کے خلاف نہیں لکھا جس پر توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کو سزا ہوئی ۔ سزا کے بعد اپوزیشن وزیراعظم کو نہیں مانتی ، اسپیکر نے وزیراعظم کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ، اسپیکر کا فیصلہ بھی چیلنج ہو چکا ہے ۔
اب سپریم کورٹ اگر اسپیکر کے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر کرتی ہے تو اس پر اعتراض کرنیوالوں کو پہلے سوچنا ہو گا کہ عدالت صرف انصاف کرتی ہے اور اس کیلئے سب برابر ہیں ۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ صدر سے ملک ریاض کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ شاید یہ صدر کے کہنے پر ہوا ہو گا ۔
فوج پر اثرات
گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے مختلف معاملات پر پاکستان میں عسکری قیادت پر مختلف حوالوں سے مختلف سوالات اٹھتے رہے ہیں ، کبھی اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر تو کبھی امریکی آپریشن میں فوج کی لاعلمی پر جبکہ میمو اسکینڈل پر بھی بہت سے باتیں ہوئیں ۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کیس میں بھی بہت سے سیکورٹی اداروں کا نام آ رہا ہے اور بعض حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ شاید ملک ریاض یہ سب کچھ فوج کے کہنے پر کر رہے ہوں اور فوج اس کیس سے سپریم کورٹ کو لاپتہ افراد کیس میں پیش رفت سے خبردار کر رہی ہو ۔ بہرحال اس تاثر کے خاتمے کیلئے یہ کیس نتیجہ خیز ہونا انتہائی ضروری ہے ۔
میڈیا پر اثرات
ملک میں الیکٹرانک میڈیا کو آئے ہوئے تقریبا گیارہ سال ہو چکے ہیں اور پہلی مرتبہ کسی مقدمہ میں بہت سے سینئر اینکرز سے متعلق بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں میڈیا کا کیا کردار ہے،کیا میڈیا اس تمام معاملے میں استعمال ہوا ہے ؟کیوں صرف چن چن کر بعض سینئر صحافیوں کو ہی ملک ریاض نے بلایا ؟ملک ریاض چاہتا تو سارے معاملات پر پریس کانفرنس بھی کر سکتا تھا ۔زیادہ تر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض نے انہیں صرف ثبوت دکھائے ہیں،دیئے نہیں تاہم سپریم کورٹ میں حاضر ہونے والے بعض صحافیوں نے عدالت کو کچھ دستاویزات بھی فراہم کی ہیں ۔
ابھی تک ملک ریاض سے ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں میڈیا پر صرف صحافی ہی یکطرفہ طور پر باتیں کررہے ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں ملک ریاض کیا کہتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی سوال اٹھایا جار ہا ہے کہ صحافیوں کے سامنے اس وقت ایک ایسا دولت مند شخص موجود ہے جو اپنے پیسے کے بل بوتے پر کئی لوگوں سے بات کہلوا سکتا ہے اور کسی کا منہ بھی بند کر سکتا ہے۔
دوسری طرف چیف جسٹس کے بیٹے کا معاملہ ہے لہذایہ چند صحافیوں کیخلاف سازش بھی ہو سکتی ہے ۔ یا چند صحافی اس سازش میں ملوث بھی ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں صحافت جیسے مقدس شعبے پر بھی لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے ۔
ملک ریاض سے ملاقات کرنے والے صحافی یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں ملک ریاض نے بتایا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اعتزاز احسن نے بھی دستاویزات دیکھیں ، جس کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس شخص کیلئے وہ عدلیہ بحالی تحریک میں گاڑی ڈرائیو کرتے رہے ان کے بیٹے نے ایسا کیوں کیا ؟لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرم اگر کیا ہے تو وہ چیف جسٹس کے بیٹے نے کیا ہے چیف جسٹس نے نہیں ۔پھر ایک قانون دان ہوتے ہوئے اعتزاز احسن کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آئی ؟
اس معاملے نے ملک کے تمام بڑے اور معتبر اداروں میں ہلچل مچا دی ہے ۔ تمام ٹی وی چینلز ، اخبارات ا ور سیاسی و عوامی حلقوں میں اسی کیس کا چرچا ہے۔