پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی سماعت کرنے والے بینچ سے خود کو علیحدہ کر دیا ہے۔
جمعرات کو جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ایک مرتبہ پھر اعتراض کیا کہ چیف جسٹس کو اس مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہیئے جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ انھیں بینچ سے الگ ہو جانا چاہیئے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کا مبینہ طور پر ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت ملک ریاض سے کروڑوں روپے مالی فوائد حاصل کرنے کی خبروں کا از خود نوٹس لیا تھا۔
نجی ٹی وی چینل ’’جیو نیوز‘‘ کے اینکر پرسن کامران خان نے عدالت کو بتایا کہ انھیں ملک ریاض نے دستاویزات دکھائی تھیں جن کے تحت ارسلان افتخار کے غیر ملکی دورے کے دوران ان کی رہائش اور شاپنگ کے لیے خطیر رقم ادا کی گئی۔ لیکن کامران خان کے بقول انھیں دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں۔
بحریہ ٹاؤن نامی تعمیراتی منصبوے کے مالک ملک ریاض جمعرات کو بھی عدالت میں پیش نا ہوئے اور وکیل زاہد بخاری نے بتایا کہ ان کے موکل علاج کی غرض سے برطانیہ میں ہیں۔
بدھ کو مقدمے کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر ان کا بیٹا قصور وار پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گئی۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق ملک ریاض نے مبینہ طور پر 30 سے 40 کروڑ روپے ڈاکٹر ارسلان کو دیے اور اس کا مقصد عدالت عظمیٰ میں ملک ریاض کے خلاف زیر التواء مقدمات پر اثر انداز ہونا تھا۔