امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل مصنوعی ذہانت کا ایسا آلہ تیار کررہی ہے جو خبریں بناںے کا کام کرے گا لیکن بعض ڈیجیٹل ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس طرح کے آلات نادانستہ طور پر پروپیگنڈہ پھیلانے یا خبروں کے ذرائع کی حفاظت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
اخبار نیویارک ٹائمز نے پچھلے ہفتے اطلاع دی تھی کہ گوگل " جینیسس" کے نام سے ایک نئی پروڈکٹ کی جانچ کر رہا ہے جو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے نیوز آرٹیکلز یعنی خبریں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جینیسس رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں معلومات اکٹھی کر کے از خود خبروں کا مواد بنا سکتا ہے۔
گوگل کمپنی پہلے ہی اس پروڈکٹ کو نیو یارک ٹائمز اور دی واشنگٹن سمیت د ی وال اسٹریٹ جرنل کی مالک کمپنی نیوز کارپوریشن کو پیش کر چکی ہے۔
گزشتہ سال موسم خزاں میں مواد پیدا کرنے والی مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ 'چیٹ جی پی ٹی' کے آنے سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کو خبروں کی صنعت سمیت زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں کس طرح شامل ہونا چاہیے۔
دوسری طرف مصنوعی ذہانت کے آلات صحافیوں کے لیے تحقیق کرنے میں معاون بھی ہو سکتے ہیں کیوں کہ ان کو بروئے کار لاتے ہوئے رپورٹرز ڈیٹا کا فوری تجزیہ کر سکتے ہیں اور 'اسکریپنگ' کے عمل سے پی ڈی ایف فائلز سے اطلاعات اکٹھی کر سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مصنوعی ذہانت صحافیوں کو حقائق کے ذرائع جانچنے میں مدد کر سکتی ہے۔لیکن مصنوعی ذہانت کے ذریعے صحافت میں ممکنہ طور پر پروپیگنڈہ پھیلانے کا خدشہ یا رپورٹنگ کرنے کے لیے انسانوں کے زاویے سے رپورٹنگ کو نظر انداز کرنا زیادہ اہم پہلو دکھائی دیتے ہیں۔
یہ خدشات گوگل کے جینیسس ٹول سے خبریں تیار کرنے کےعمل سے پرے وسیع تر تناظر میں آتے ہیں۔
اس سلسلے میں ٹورنٹو میں سٹیزن لیب میں ڈس انفارمیشن پر تحقیق کرنے والے جان اسکاٹ ریلٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مضامین کو احتیاط سے چیک نہیں کیا جائے تو ان نیوز آ رٹیکلز میں انجانے میں غلط معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی کے سٹرن سنٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر پال ایم بیریٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت جھوٹ کو پھیلانے میں بڑا حصہ ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ "غلط معلومات پیدا کرنا آسان ہو جائے گا۔" "میرے خیال میں، گمراہ کن مواد کی فراہمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔"
دوسری جانب گوگل کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کیے گئےبیان میں کہا کہ کمپنی "نیوز پبلشرز، خاص طور پر چھوٹے پبلشرز کے ساتھ شراکت داروں کے ساتھ کام میں مدد کرنے کے لیے ابتدائی مراحل میں کام کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان نے کہا کہ کمپنی کا مقصد صحافیوں کو ان ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اس طریقے سے استعمال کرنے کا انتخاب دینا ہے جس سے ان کے کام اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ان آلات کا مقصد صحافیوں کے اپنے مضامین کی رپورٹنگ، تخلیق اور حقائق کی جانچ پڑتال میں ضروری کام کا متبادل بنانا نہیں اور نہ ہی یہ ایسا متبادل ہو سکتے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال کے حوالے سے نیوز آؤٹ لیٹس کی ساکھ پر اثرات مرتب ہونے کا ہے۔
خبر رساں ادارے پہلے ہی اپنی ساکھ یا اعتبار کے بحران سے دوچار ہیں۔
عوامی سروے کے ادارے گیلپ اور نائٹ فاؤنڈیشن کی فروری کی ایک رپورٹ کے مطابق نصف امریکیوں کا خیال ہے کہ قومی خبریں اپنی رپورٹنگ کے ذریعے سامعین کو گمراہ کرنے یا غلط معلومات دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
ماہر اسکاٹ ریلٹن کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت کا زیادہ تر صنعتوں میں مستقبل ہے۔ لیکن وہ زور دیتے ہیں کہ اس عمل میں خاص طور پر خبروں کے شعبے میں جلدی نہ کی جائے۔