مصنوعی ذہانت کا ایپ چیٹ جی پی ٹی اگرچہ ابھی اپنے تجرباتی مراحل میں ہے اور اس چیٹ فورم پر لوگ اس سے بات کر کے نہ صرف لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ مفید معلومات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اس ایپ کا تجرباتی طور پر مذہبی تبلیغ اور و عظ کے لیے استعمال شروع کیا گیا ہے اور اس کے دلچسپ اور فکرانگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔
اوپر دی گئی تصویر جرمنی کے ایک قصبے بویرین کے سینٹ پال چرچ کا منظر پیش کرتی ہے جس کا ہال مسیحی پیروکاروں سے بھرا ہوا ہے ۔ سامنے اسٹیج پر کوئی پادری نہیں ہے بلکہ ایک بڑی سکرین آویزاں ہے جس پر ایک ہلکی داڑھی والی سیاہ فام کی شبیہ نمودار ہوتی ہے اور ایک آواز ہال میں موجود تین سو سے زیادہ پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں سے اٹھیں اور رب کی ثنا کریں۔
پھر ان الفاظ کے ساتھ شبیہ کا وعظ شروع ہوتا ہے کہ، ’عزیز دوستو ۔ یہاں آپ کے سامنے کھڑے ہونا اور جرمنی میں پروٹسٹنٹ کے اس سال کے کنونشن میں مصنوعی ذہانت کے پہلے کردار کے طور پر آپ کو تبلیغ کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے‘۔یہ سروس 40 منٹ تک جاری رہتی ہے، جس میں خطبہ،دعائیں اور موسیقی سب شامل ہے۔ شبیہہ کی آواز میں ر وانی ہے۔ اس کے لب و لہجے میں کوئی اتار چڑھاؤ اور زیر و بم نہیں ہے۔ ۔ وہ آواز تو انسان جیسی ہے لیکن اس طرح کی نہیں ہے جیسے انسان بولتے ہیں۔
اس سروس کے دوران اسکرین پر چار مختلف مناظر پیش کیے گئے جن میں دو نوجوان مردوں اور دو نوجوان خواتین نے قیادت کی۔
جرمنی کے بویرین اور نیورمبرگ قصبوں کے پروٹسٹنٹ کنونشن کے سلسلے میں ہونے والے مذہبی اجتماعات میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے چرچ سروس میں لوگوں کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ سروس شروع ہونے سے کم وبیش ایک گھنٹہ پہلے ہی گرجا گھر کی عمارت کے باہر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے۔
چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے اس مذہبی سروس کے تخلیق کار جونس سمرلائن تھے جو ویانا یونیورسٹی میں فلسفے اور علوم الہیات کے پروفیسر ہیں۔
29 سالہ سمرلائن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے مذہبی سروس کا تصور ان کا تھا لیکن اس میں کہی جانے باتوں کا تقریباً 98 فی صد حصہ مصنوعی ذہانت کے ایپ نے خود تخلیق کیا تھا۔
سمر لائن نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے چرچ سروس کا پروگرام ترتیب دیتے وقت میں نے مصنوعی ذہانت کے ایپ کو یہ فیڈ کیا تھا کہ آپ چرچ کی مذہبی تقریب میں ہیں ۔ آپ ایک مبلغ ہیں۔ اب آپ نے طے کرنا ہے کہ یہ مذہبی سروس کیسی ہونی چاہیے۔میں نے ایپ کو یہ بھی بتایا کہ اس سروس میں مقدس مذہبی کتاب کے اقتباس اور خیروبرکت کے لیے دعائیں بھی شامل ہونی چاہیئں۔
پروفیسر سمرلائن کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے اس تجربے کی کامیابی پر خوشی بھی ہوئی ہے اور یہ حیرانی بھی کہ مصنوعی ذہانت کے ایپ نے چرچ سروس کا اختتام بڑی خوبی کے ساتھ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سروس کے دوران مصنوعی ذہانت کے ایپ نے ایک اچھے مبلغ اور واعظ کی طرح لوگوں کو ماضی کو پیچھے چھوڑنے، زمانہ حال کے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرنے، موت کے خوف پر قابو پانے اور یسوع مسیح پر پختہ ایمان رکھنے کے موضوعات کو اپنے وعظ میں شامل کیا جسے وہاں موجود عبادت گزاروں نے بڑی توجہ سے سنا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ایپ کی اس سروس میں شامل کئی لوگوں میں بڑا جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ کچھ نے اپنے سمارٹ فونز پر اس تقریب کی ویڈیو ریکارڈ کی۔ کئی ایک نے اسے تنقیدی نگاہوں سے دیکھا اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سروس کے اختتامی دعائیہ کلمات میں اپنی آواز شامل نہیں کی۔
آئی ٹی میں کام کرنے والی 54 سالہ ہیڈروز شمٹ نے کہا کہ جب سروس شروع ہوئی تو وہ بہت پرجوش اور متجسس تھیں لیکن پھر اس میں تیزی سے کمی آئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصنوعی ذہانت کی ایپ کی تخلیق کردہ شبیہ جس آواز میں بول رہی تھی ، اس میں نہ تو روحانیت تھی نہ جذبات تھے اور نہ ہی دل میں اتر جانے والا انداز۔شبیہ کی کوئی باڈی لینگویج بھی نہیں تھی اور بولنے کا انداز سپاٹ تھا۔
اس تجربے کو دیکھنے کے لیے جرمنی کے شہر کولون کے قریب واقع ٹرونسڈورف سے تعلق رکھنے والے ایک 31 ساله پادری مارک جانس نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ میں ایک بدتر تجربے کا مشاہدہ کروں گا۔لیکن مجھے مصنوعی ذہانت کے کافی اچھا کام کرنے پر حیرانی ہوئی ۔ تاہم بعض حصوں میں اس کی بات سمجھنے کے لیے کچھ الجھن ہوئی۔
نوجوان پادری کا کہنا تھا کہ وعظ کا مسودہ لکھنے کے لیے جذبات اور روحانیت کی جھلک کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جس کی کمی محسوس ہوئی۔
نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ٹوئنٹی میں اخلاقیات کی تیکنیکی امور پر تحقیق کرنے والی 28 سالہ اینا پوزیو بھی اس تجرباتی سروس کو دیکھنے کے لیے آئیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی معاملات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے وسیع مواقع موجود ہیں، لیکن اس میں خطرات بھی بہت ہیں۔
اینا کا کہنا تھا کہ میں جو سب سے بڑا چیلنج دیکھ رہی ہوں ، اس میں واعظ کو انسان جیسا بنا کر پیش کیا گیا ہے جس سے دھوکہ کھانا بہت آسان ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے مذہب میں کئی نظریات ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان پر اظہار کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
اس تجربے کے تخلیق کار جونس سمرلائن کہتے ہیں کہ ان کا مقصد مصنوعی ذہانت کو مذہبی راہنماؤں کے متبادل کے طور پر پیش کرنا نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مذہبی راہنما اسے اپنے امور کی انجام دہی کے لیے ایک مددگار کے طور پر استعمال کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت تیزی سے ہماری زندگیوں میں سرایت کر رہی ہے۔ اس لیے اس کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنا اوراس کے تمام چیلنجز سے نمٹنا اور بھلائی کی خاطر اس کے استعمال کے لیے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(اس مضمون کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)