فلسطینی عسکریت پسندوں نےبیت المقدس میں اسرائیلی پولیس کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد پیر کو پہلی بار جنوبی اسرائیل پر راکٹ داغاہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے راکٹ کو فضا میں ہی روک لیا اور اس سے کسی جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔اسرائیل غزہ کی عسکریت پسند تنظیم، حماس کو ایسے تمام میزائل حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور عام طور پر اسی تناظر میں جوابی فضائی حملے کرتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ منگل کی صبح اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے جنوبی غزہ کی پٹی پر کئی فضائی حملے کیے جس میں حماس کی ہتھیاروں کی فیکٹریوں کو نشانہ بنایا گیا، لیکن وہاں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
اس سے چند گھنٹے پہلے عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے رہنما نے بیت المقدس میں اسرائیلی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے وارننگ جاری کی تھی۔فلسطینی علاقوں سے باہر مقیم رہنما زیاد النخالا نے کہا تھا کہ حماس کے اقتدار کے بعد نافذ کی جانے والی غزہ کی ناکہ بندی یروشلم میں ہونے والے واقعات پر ہمیں خاموش نہیں رکھ سکتی۔
تاہم، کسی بھی فلسطینی گروپ نے راکٹ فائر کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔اختتام ہفتہ فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان بیت المقدس کے اندر اور باہر جھڑپیں ہوئی ہیں۔گزشتہ برس اس طرح کی جھڑپوں اور مظاہروں کے بعد اسرائیل اور فلسطینوں کے درمیان گیارہ روزہ جنگ شروع ہوگئی تھی۔
SEE ALSO: یروشلم میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں جھڑپیں، 152فلسطینی زخمیحالیہ جھڑپوں کے حوالے سے اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے پتھراؤکا جواب دے رہےہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں ان مقدس مقامات پر اپنے مذہبی فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔ فلسطینی اس مقام پر اسرائیلی پولیس کی موجودگی کواشتعال انگیزی تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی؛جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے پیر کو راکٹ فائر کیے جانے سے پہلے کہا تھا کہ اسرائیل حماس کی اشتعال انگیزی کی مہم کا نشانہ بن رہاہے۔
تازہ ترین کشیدگی ماہ رمضان میں یہودیوں کے ہفتہ بھر کی مقدس تعطیلات 'پاس اوور' کے دوران بڑھی،عیسائی بھی اس دوران ایسٹر کا تہوار منارہے تھے جس کی وجہ ہ سےہزاروں زائرین کرونا کی وبا کے بعد پہلی بار یروشلم کے پرانے شہر میں جمع ہوئے جو تینوں مذاہب کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔
اردن اور مصر نے جن کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہے اور سلامتی کے معاملات میں ہم آہنگی رہتی ہے، مسجد میں اس کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی ہے۔ اردن نے اسرائیلی سفارتکار کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
ایک بیان کے مطابق اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ اس تشدد پر تبادلہ خیال کیا ہے اور دونوں رہنماوں نے تمام اسرائیلی غیر قانونی اور اشتعال انگیز اقدامات کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اردن اس معاملے پر دیگر عرب ریاستوں کا اجلاس طلب کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہے۔
اسرائیل گزشتہ سال سے اردن سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کام کررہا ہے اور حال ہی میں دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات کو معمول پر لے آیا ہے، لیکن حالیہ تناو نےدیرینہ مسئلہ فلسطینی کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے جسے اسرائیل نے حالیہ برسوں میں پِسِ پشت ڈالنے کوشش کی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، اشتعال انگیز کارروائیوں اور بیان بازی سے گریز کریں اور مقدس مقام کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھیں۔ ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکی حکام کشیدگی کم کرنے کے لیے خطے کے تمام ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کو کشیدگی پر گفتگو کے لیے بندکمرہ اجلاس طلب کرلیا ہے۔
اسرائیل میں حکومت کی اتحادی ایک عرب جماعت نے اتوار کو حکومت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیا، جو مسئلے کی حساسیت کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ صدیوں پرانا تنازعہ کس طرح لوگوں کے لیے جذبات کا مرکز ہے۔
فلسطینیوں کو طویل عرصہ سے خدشہ ہےکہ اسرائیل مسجدکے احاطے پر قبضہ یا تقسیم کا منصوبہ بنارہا ہے۔یہودی انتہا پسندوں نے جب اس مقدس مقام پر جانور وں کی قربانی کا اعلان کیا تو یہ اعلان سماجی میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنےلگاجس کے ساتھ ہی مسجد کے دفاع کے لیے آوازیں اٹھنے لگیں؛ جبکہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور پولیس نےجانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کردی ہے۔
اسرائیل یہودیوں کو اس مقام تک جانے کی اجازت دیتا ہے لیکن وہاں عبادت کی اجازت نہیں دیتا ۔ حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں قوم پرست اور مذہبی گروپ پولیس کی حفاظت میں باقاعدگی سے اس مقام پر آتے رہے ہیں جس سے فلسطینیوں اور اردن میں غم و غصہ پھیلا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جمعہ کو پولیس کو کمپاونڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا گیا، کیونکہ فلسطینی اس گیٹ پر پتھراو کررہے تھے جس سے یہودی زائرین عام طور پر داخل ہوتے ہیں ، یہی دروازہ مغربی کنارے کی جانب بھی جاتا ہے جو یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے اور وہ یہاں اپنی عبادت کرتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیل کے اندر تواتر سے ہونے والے حملوں میں چودہ افراد ہلاک ہوئے جس پر اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً روز انہ گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے اور دیگر فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ فوج کے مطابق رات بھر کے چھاپوں کے دوران گیارہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس دوران فلسطینیوں نےمبینہ طور پر فوج پر پتھراو کیا اور ان پر دھماکہ خیز مواد پھینکا جس پر فوج نے ان مشتبہ افراد پر براہ راست گولیاں چلائیں جس سے دو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔فوج کے مطابق ان مسلح حملہ آوروں میں سے دو کا تعلق جنین اور اس کے ارد گرد کےعلاقے سے ہے جو طویل عرصہ سے اسرائیلی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا گڑھ ہے۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حالیہ ہفتوں میں کم سے کم 26 فلسطینی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ایک نہتی خاتون اور ایک وکیل بھی شامل ہے۔
(خبر میں شامل مواد خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)