اسرائیل کے وزیرِ دفاع بینی گینتز کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی حکام نے اسرائیل کے حقِ دفاع کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
بینی گینتز نے جمعرات کو اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن اور مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان سے ملاقات کی۔ دونوں امریکی حکام نے اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکی حمایت کے عزم کو دہرایا۔
جیک سلیوان سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں امریکی قومی سلامتی کونسل کی خاتون ترجمان ایملی ہورن نے بتایا کہ بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے اسرائیل اور فلسطینی جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے معاملے پر گفتگو کی، جس کا اختتام گزشتہ ماہ کے اواخر میں ناپائیدار جنگ بندی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
ایملی ہورن نے کہا کہ سلیوان نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کے بارے میں صدر بائیڈن کی جانب سے غیر متزلزل حمایت کے بیان کو دہرایا۔ ساتھ ہی انہوں نے 'آئرن ڈوم' فضائی نظام سمیت ہر قسم کی حمایت کا اعادہ کیا جس میں امریکہ اسرائیل سیکیورٹی پارٹنرشپ کے تمام پہلوؤں کو ٹھوس بنانے کے عزم کا اعادہ بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ 'آئرن ڈوم' دفاع کا ایسا مضبوط نظام ہے جس کے ذریعے مختصر رینج کے راکٹ اور بھاری اسلحے کی گولہ باری کو فضا میں ہی جھپٹ کر تباہ کر دیا جاتا ہے۔
ہورن نے بتایا کہ جیک سلیوان نے اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ غزہ کے لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
ترجمان نے بتایا کہ جیک سلیوان اور بینی گینتز نے استحکام، امن اور سلامتی کو تقویت دینے کے مشترکہ مفاد پر بھی گفت و شنید کی جب کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ملک حکمت عملی کی حامل ترجیحات کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیرِ دفاع دورۂ امریکہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب 12 برس اقتدار میں رہنے کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا مخالف اتحاد مخلوط حکومت بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب جوہری معاہدے کے معاملے پر امریکہ ایران کے ساتھ گفتگو کا خواہاں ہے، اسرائیل امریکہ کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
گینتز کا یہ بیان اسرائیل کے اختیار کردہ روایتی مؤقف سے مختلف معلوم ہوتا ہے۔ اس معاملے پر امریکہ اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے درمیان کھلی نااتفاقی جاری رہی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات سے قبل بینی گینتز نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ایران کا جوہری پروگرام اور دیگر سرگرمیاں اسرائیل کے وجود کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ تاہم نیتن یاہو کی سوچ کے برعکس گینتز نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔
'اسرائیل اشتعال انگیزی سے گریز کرے گا'
اسرائیلی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کا معاملہ یقینی طور پر اسرائیل اور خطے کے دیگر ملکوں کی اسٹریٹجک ضرورت کے عین مطابق ہے۔
یاد رہے کہ سال 2015 میں اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کیا تھا۔ لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔
کئی برسوں سے نیتن یاہو ایران کے ساتھ ہونے والے اس عالمی نیوکلیئر معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 2015 میں امریکی کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران نیتن یاہو نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو 'انتہائی خراب سمجھوتہ' قرار دیا تھا۔
اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے دورۂ امریکہ کے دوران ایران کے جوہری پروگرام پر ایک مرتبہ پھر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے مابین مکالمہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے تا کہ جوہری ہتھیار ایران کے ہاتھ نہ لگنے کا مشترکہ مفاد مؤثر طریقے سے حاصل کیا جا سکے۔
بینی گینتز نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے لیے دفاعی خطرے کے پیشِ نظر اسرائیل ہر دم یہ کوشش کرتا رہے گا کہ اس کی دفاعی صلاحیت نا قابلِ تسخیر رہے۔
ملاقات کے دوران، امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صدر بائیڈن کے مؤقف کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کو مضبوط تر بنانے کے لیے درکار مکمل حمایت جاری رکھے گا، جس نظام کی بدولت حالیہ جھڑپوں کے دوران اسرائیل کی قیمتی جانیں سلامت رہیں۔
بعد ازاں اسرائیلی وزیرِ دفاع نے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے حالیہ دنوں کے دوران اسرائیل اور خطے کا دورہ کیا تھا۔
بینی گینتز سے ملاقات سے قبل بلنکن نے اخباری نمائندوں کو بتایا تھا کہ امریکی انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو اور تباہ ہونے والے اداروں کو امداد فراہم کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔
حالیہ گیارہ روزہ اسرائیل فلسطین جھڑپوں کے دوران حماس نے اسرائیل پر 4000 سے زائد راکٹ داغے جس پر اسرائیل نے حماس کی حکمرانی والے غزہ کے علاقے کو نشانہ بنایا تھا۔
ان کارروائیوں میں 260 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت فلسطینیوں کی تھی۔