پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ایک سال کے دوران موجودہ حکومت نے سخت معاشی فیصلے کیے ہیں اور اگر حکومت کی معیشت پر منظم انداز میں توجہ برقرار رہی تو پاکستان کا معاشی استحکام حاصل کرنا ناممکن نہیں۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ کے اسد اللہ خالد کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ مشکل معاشی صورتِ حال سے نکلنے کے دو طریقے ہوتے ہیں: ایک تو درآمدت کم ہوں اور دوسرا یہ کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔
اُن کے بقول، حکومت کی طرف سے فوری طور پر جو اقدام کیا جا سکتا ہے، وہ درآمدات میں کمی لانا ہے جب کہ برآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ستمبر 2018 میں ہی درآمدات میں کمی کے حوالے سے اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے جس کے اثرات جنوری سے مارچ 2019 میں نظر آنا شروع ہوئے۔
پیداوار میں اضافے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال انتہائی خراب تھی اور پہلا ہدف اس سے نکلنا ہے۔ اس لیے، ان کے بقول، گزشتہ ایک سال میں معیشت میں بہتری نظر نہیں آئی۔ لیکن اب استحکام آنا شروع ہوا ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ اب معاشی استحکام کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا اور اس کے اثرات بھی ایک سال بعد نظر آنا شروع ہوں گے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر اسد عمر نے کہا کہ روپے کی قدر کا دارومدار بین الاقوامی تجارت پر ہوگا۔ اگر درآمدات اور برآمدات میں فرق زیادہ ہوا تو اس سے روپے پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
گزشتہ اور موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی میں فرق کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ایک سال کے دوران افراطِ زر کی اوسط گزشتہ دونوں حکومتوں کے مقابلے میں کم رہی ہے۔
ان کے بقول، تحریکِ انصاف کی حکومت نے خود معاشی حکمتِ عملی بنانا شروع کی ہے اور ایسا نہیں کیا کہ آئی ایم ایف آ کر معاشی پالیسی کی ترجیحات بتائے۔
اسد عمر نے بتایا کہ موجودہ معاشی ٹیم کی ڈائریکشن طے شدہ ہے اور اگر ان کی کارکردگی برقرار رہی تو بہتری نظر آئے گی اور سب ان کی تعریف بھی کریں گے۔ ابھی اس ٹیم کو آئے ہوئے چار ماہ ہوئے ہیں تو ان کی کس بات پر تنقید کی جائے؟ البتہ انہوں نے کارکردگی نہ دکھائی تو سب کہیں گے کہ جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہیں کی گئیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بارے میں سابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستان میں فنانشل سسٹم بہت اپ گریڈ ہوا ہے اور اس وقت صورتِ حال گزشتہ تین سال کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
ان کے بقول، تین سال قبل تو پاکستان 'ایف اے ٹی ایف' کی گرے لسٹ میں نہیں تھا تو اب حالات بہتر ہونے کے بعد تو اسے اس لسٹ میں ہونا ہی نہیں چاہیے۔ لیکن، ان کے بقول، یہ فیصلہ 'ایف اے ٹی ایف' نے کرنا ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں کئی اہم عہدوں پر ایسے پاکستانی تعینات ہوئے ہیں جو پہلے بیرونِ ملک خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کے بقول، یہ پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کے کہنے پر پاکستان میں خدمات انجام دینے واپس آئے۔