ایشیائی امریکی خاتون مشیل سٹیل جنوبی کوریا میں پیدا ہوئیں اور جاپان میں پلی بڑھیں۔انہوں نے امریکی کانگرس کی رکن بننے کا مرحلہ گزشتہ سال طے کیا، جب وہ کانگریس کی رکنیت کا انتخاب جیت کر امریکی ایوان نمائندگان کا حصہ بنیں۔
مشیل سٹیل کو اپنی انتخابی مہم میں ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جو ایک تارک وطن کو درپیش آتے ہیں۔
وہ کیلی فورنیا کے کانگریس کے 48ویں ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کی سیاست میں شمولیت امریکی ووٹروں اور ان کے منتخب کردہ حکومتی عہدیداران میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔
سٹیل جو ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ، ان کے لئے اپنے مخصوص تلفظ کے ساتھ لوگوں کے سامنے تقریر کرنا آسان نہیں تھا۔
امریکی ووٹروں میں نسلی تنوع کا آغاز اس وقت ہوا جب 1965 میں امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے ووٹ دینے کے حق کا قانون منظور کیا گیا۔ امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے رجحانات میں تبدیلی تب سے آہستہ آہستہ جاری ہے۔
SEE ALSO: امریکہ: ریاست جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں پر پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی جاریاس قانون کی منظوری کے کئی عشروں کے بعد 2020 کے صدارتی انتخابات میں ایشیائی امریکی کمیونٹی نے صدارتی انتخاب اور کانگریس کے الیکشن میں بھرپور شرکت کی اور ان کی شمولیت سے امریکہ میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔
آبادی کے تناسب پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیائی امریکی اب تیزی سے امریکی سیاست کے افق پر ایک غالب قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے۔
اس سلسلے میں 29 تنظیموں کے نمائندہ گروپ ایشیائی امریکی اینڈ پیسیفک آئیلینڈرز (اے اے پی آی) کے ڈیٹا پر تحقیق کرنے والی سارا سدھوانی کا کہنا ہے کہ ایشیائی کمیونٹی امریکہ کے آئیندہ انتخابات میں ایک اہم سیاسی قوت بن سکتی ہے۔
امریکی ادارہ مردم شماری کے مطابق سال 2020 کے صدارتی انتخاب میں ایشیائی امریکی ووٹرز کی ووٹ ڈالنے کی شرح 60 فیصد کی تاریخی سطح پر پہنچی۔
ان ووٹروں میں سے 68 فیصد نے ڈیموکریٹک امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ 28 ٖفیصد نے سابق صدر اور ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔
اے اے پی آئی کی شہری رابطوں کی تنظیم ایشیائی امریکی شہریوں کے نزدیک اہم ترین مسائل میں ملازمتوں کے مواقع، معیشت کی حالت اور صحت کا نظام شامل ہیں اور اس کی وجہ سے ڈیموکریٹک امیدواروں نے جن موضوعات پر بات کی وہ ان کے لیے پر کشش بنے۔
SEE ALSO: امریکہ: تارکینِ وطن ووٹر صدارتی انتخابات پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟علاوہ ازیں،امریکی حکومت کا کووڈ نائنٹین کی وبا سے نمٹنا، امتیازی سلوک اور نسلی اقلیت کے طور پر سماجی انصاف جیسے دیگر اہم معاملات بھی ان کے لیے اہم ہیں۔
مبصرین کے مطابق امریکہ کے گزشتہ صدارتی انتخاب میں ایشیائی امریکی شہریوں کے ووٹ ڈالنے کی تاریخی شرح ان کی برادری کے خلاف ہونے والے نفرت پر مبنی واقعات کی لہر کا رد عمل تھا۔
سادھوانی کے مطابق، اس ضمن میں تحقیق اس نکتے پر مرکوز رہی کہ ایشیائی امریکی شہریوں کا الیکشن کے سال میں ووٹر کے طور پر رجسٹر ہونا انہیں درپیش امتیازی رویوں اور سماجی عدم شمولیت کی وجہ سے کس حد تک ممکن ہوا۔
کانٹے کے مقابلے کی ریاستوں میں ایشیائی امریکی ووٹوں کا اثر
سن 2020 کے الیکشن میں ایشیائی امریکی ووٹرز نے ملک کی ان تمام ریاستوں میں زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے جہاں کانٹے کے مقابلے ہوئے۔ ڈیموکریٹک سیاسی ڈیٹا سے متعلق کمپنی، ٹارگٹ سمارٹ کے مطابق ایشیائی امریکی شہریوں کی ووٹ ڈالنے کی شرح دوسری تمام اقلیتی برادریوں سے زیادہ رہی۔
مثال کے طور پر امریکہ کی جنوبی ریاست جارجیا کے الیکشن پر ایشیائی امریکی ووٹ بہت اثر انداز ہوا، کیونکہ اس سےپہلے 2016 کے انتخٓابات کے مقابلے میں اس بار اس برادری سے باسٹھ ہزار لوگوں نے ووٹ ڈالے۔
ٹارگٹ سمارٹ کمپنی کے مطابق، کیونکہ جارجیا میں بائیڈن اور نائب صدر کی امیدوار کاملا ہیرس نے یہ مقابلہ صرف بارہ ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتا، لہذا اس نتیجے میں ایشیائی امریکی ووٹ کا کردار بہت اہم رہا۔
سارا سدھوانی اور کیلی فورنیا میں کانگریس کے لیے پہلی بار منتخب ہونے والی چینی امریکی خاتون جوڈی چو کا کہنا ہے کہ ایشیائی امریکی ووٹ بہت موثر رہا اور اس کی وجہ سے جارجیا کی ری پبلیکن ریاست ڈیموکریٹس کے پاس چلی گئی۔ اس کے علاوہ سینٹ کے ووٹ پر بھی یہ کمیونٹی اثر انداز ہوئی۔
ریکارڈ تعداد میں نمائندگی
سن 2020 کے انتخابات میں ایشیائی امریکی امیدوار کانگریس کی 21سیٹوں پر منتخب ہوئے، جو کہ اس برادری کے نمائندوں کی کسی ایک الیکشن میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی سے ایشیائی امریکی شہریوں کو اپنی شرکت مزید بڑھانے کا حوصلہ ملا۔
اس بارے میں "ایشیئن پیسیفک امیریکن انسٹی ٹیوٹ فار کانگریشنل اسٹڈیز" کی صدر میڈیلین میلک کا کہنا ہے کہ جوں جوں ایشیائی امریکی الیکشن کے عمل میں زیادہ حصہ لے رہے ہیں اس سے ووٹر ٹرن آوٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ حالیہ نمائندگی میں اضافے کے باوجود آبادی کے لحاظ سے اب بھی ایشیائی امریکی برادری کی نمائندگی بہت کم ہے۔
یاد رہے کہ ایشیائی امریکی اور جزائر بحرالکاہل سے آ کر امریکہ میں آباد ہونے والے افراد امریکہ کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں لیکن منتخب نمائندوں میں ان کا تناسب صرف 0.9 فیصد ہے۔
تحقیقی ادارے، پیو ریسرچ سنٹر اور امریکی محکمہ مردم شماری کے مطابق 71 فیصد بالغ ایشیائی امریکی افراد امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ انگریزی زبان ٹھیک سے نہیں بول سکتے۔
جوڈی چو کہتی ہیں کہ اس برادری میں "بہت سے لوگ امریکہ کے جمہوری طریقوں سے ناواقف ہیں، انہیں اس بات کے ادراک میں وقت لگتا ہے کہ تمام افراد کی اجتماعی آواز کی کتنی اہمیت ہے۔ بعض لوگ ایسی جگہوں سے امریکہ آتے ہیں جہاں انتخابات شفاف انداز میں نہیں منعقد ہوتے یا انتخابات ہوتے ہی نہیں۔"
SEE ALSO: امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف نیا قانون کتنا مؤثر ثابت ہو گا؟نیویارک کے میئر کے الیکشن کی دوڑ میں حصہ لینے والے نجی کاروبار کے مالک اینڈریو یینگ کی مہم کے دوران فعال رہنے والی شہری گیگی لی کہتی ہیں کہ "ہم ٹی وی اسکرینز اور بااختیار جگہوں پر ایسے لوگ دیکھنا چاہتے ہیں جو ہماری طرح دکھتے ہوں، جو یہ پیغام پھیلا سکیں اور حقیقی تبدیلی کےلیے اتحاد بنا سکیں۔"
صدر بائیڈن کے دور صدارت کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران نفرت پر مبنی جرائم کے متعلق ایک نیا قانون بنایا گیا ہے جس کا ایک مقصد ایشیائی امریکی شہریوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی روک تھام بھی ہے۔
تاہم سب لوگ پرامید نہیں ہیں کہ اس وقت رونما ہونے والی مثبت تبدیلیاں جاری رہیں گی۔
پیو ریسرچ کے مطابق سن 2055 تک ایشیائی امریکی امریکہ میں تارکین وطن کا سب سے بڑا گروپ ہوگا۔
جوڈی چو کہتی ہیں:"یہ ایسی آبادی نہیں ہوگی کہ جو خاموش رہے اور ووٹ نہ ڈالے۔ انہوں نے سال دو ہزار بیس میں ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے اور جب آپ ایک بار متحرک ہو جائیں تو پھر آپ واپسی کا راستہ نہیں اپناتے۔"