شام کے سرکاری ٹیلی ویژن ’الاخباریہ‘ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ شام میں باغیوں کو دی جانے والی مغربی امداد کے اثرات ’یورپ اور امریکہ کے دل‘ میں محسوس کیے جائیں گے۔
واشنگٹن —
شام کے صدر بشارالاسد نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے شام میں گذشتہ دو برسوں سے جاری خانہ جنگی میں القاعدہ کے شدت پسندوں کو مدد فراہم کرکے ان کی مطلق العنان حکومت کے خاتمے کی کوششوں کی ’بھاری قیمت‘ چکانا پڑے گی۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن ’الاخباریہ‘ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ شام میں باغیوں کو دی جانے والی مغربی امداد کے اثرات ’یورپ اور امریکہ کے دل‘ میں محسوس کیے جائیں گے۔ شام کے صدر نے اس موقعے پر امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف شام میں القاعدہ کو مدد دینے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے کی پیشکش نہیں کی۔
دوسری جانب امریکہ نے شام میں جاری خانہ جنگی میں باغی گروپوں کو کسی قسم کے ہتھیار فراہم کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام کے موجودہ حالات کے تناظر میں اسلحہ کہیں القاعدہ کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
شام میں جاری خانہ جنگی میں حصہ لینے والے باغیوں میں آزاد خیال اور بنیاد پرست سوچ رکھنے والے دونوں قسم کے گروپ شامل ہیں۔ ان گروپوں کی سوچ اور خیالات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن یہ گروپ شام سے اسد حکومت کے خاتمے کے عزم کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کو مدد بھی دیتے رہتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران صدر اسد کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کی ’آگ‘ ہمسایہ ملک اردن تک پھیل جائے گی۔ شامی عہدیدار ایک عرصے سے اردن پر باغیوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے اور انہیں شام میں صدر اسد کی فوجوں سے لڑنے کے لیے بھیجنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں صدر بشار الاسد نے باغیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے ایک مرتبہ پھر انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی حکومت نے اس خانہ جنگی میں کامیابی حاصل نہ کی تو شام ’ختم‘ ہو جائے گا۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن ’الاخباریہ‘ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ شام میں باغیوں کو دی جانے والی مغربی امداد کے اثرات ’یورپ اور امریکہ کے دل‘ میں محسوس کیے جائیں گے۔ شام کے صدر نے اس موقعے پر امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف شام میں القاعدہ کو مدد دینے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے کی پیشکش نہیں کی۔
دوسری جانب امریکہ نے شام میں جاری خانہ جنگی میں باغی گروپوں کو کسی قسم کے ہتھیار فراہم کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام کے موجودہ حالات کے تناظر میں اسلحہ کہیں القاعدہ کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
شام میں جاری خانہ جنگی میں حصہ لینے والے باغیوں میں آزاد خیال اور بنیاد پرست سوچ رکھنے والے دونوں قسم کے گروپ شامل ہیں۔ ان گروپوں کی سوچ اور خیالات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن یہ گروپ شام سے اسد حکومت کے خاتمے کے عزم کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کو مدد بھی دیتے رہتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران صدر اسد کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کی ’آگ‘ ہمسایہ ملک اردن تک پھیل جائے گی۔ شامی عہدیدار ایک عرصے سے اردن پر باغیوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے اور انہیں شام میں صدر اسد کی فوجوں سے لڑنے کے لیے بھیجنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں صدر بشار الاسد نے باغیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے ایک مرتبہ پھر انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی حکومت نے اس خانہ جنگی میں کامیابی حاصل نہ کی تو شام ’ختم‘ ہو جائے گا۔