شام میں ایک جانب جہاں حکام ہلاکت خیز زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے وہیں ایک جیل سے خطرناک قیدیوں کےفرار کا واقعہ بھی پیش آیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پیر کو جب شام اور ترکیہ میں زلزلہ آیا تو عین اسی وقت شام کے شمال مغرب میں واقع جیل میں قیدیوں نے بغاوت کر دی۔
خبر میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ20 قیدی فرار ہو گئے ہیں جن کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش سے ہے۔
شام کی جس جیل سے قیدیوں کے فرار کا واقعہ پیش آیا ہے، یہ ترکیہ کی سرحد کے قریب راجو نامی علاقے میں واقع ہے اور اس کا انتظام ملٹری پولیس کے پاس ہے۔
اس جیل میں لگ بھگ دو ہزار قیدیوں کو رکھا گیا تھا جن میں سے 1300 قیدیوں کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا تعلق داعش سے ہے۔
اس جیل میں کرد فورسز کے جنگجوؤں کو بھی قید میں رکھا گیا ہے۔
راجو جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے سے راجو کا علاقہ بھی متاثر ہوا ہے۔ جس وقت یہاں زلزلہ آیا جیل میں قیدیوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کئی مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
پیر کو ترکیہ اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے چار ہزار سے زائد اموات کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
زلزلے سے راجو جیل کے کئی حصے متاثر ہوئے ہیں جب کہ بعض مقامات پر اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
جنگ زدہ ملک شام کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ’سیرین آبزرویٹری‘ کے مطابق جیل میں قیدیوں کی جانب سے بغاوت کی تصدیق ہوئی ہے البتہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے قیدی فرار ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں داعش کی جانب سے کئی بار جیلوں پر حملہ کرکے اپنے جنگجوؤں کو چھڑانے کی کوشش کے واقعات ہو چکے ہیں۔ اس کی تازہ مثال دو ماہ قبل دسمبر 2022 کی ہے جب رقہ میں ایک جیل پر حملہ کیا گیا تھا تاکہ وہاں سے داعش کے عسکریت پسندوں کو آزاد کرایا جا سکے۔
رقہ کے علاقے میں اس جیل کا انتظام کرد فورسز کے پاس تھا۔ داعش کے حملے میں اس کے چھ اہلکار مارے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ شام میں تنازع کا آغاز 2011 میں اس وقت ہوا تھا جب بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ بعد ازاں 2014 میں شدت پسند تنظیم داعش نے شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عراق میں 2017 جب کہ شام میں 2019 میں اس تنظیم کے زیرِ قبضہ علاقوں کو واگزار کرا لیا گیا تھا۔ امریکہ نے اکتوبر 2019 میں تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ابوبکر البغدادی کے بعد داعش کا سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو بنایا گیا تھا۔ گزشتہ برس فروری میں مغربی شام میں امریکی فورسز کی ایک کارروائی میں ابو ابراہیم الہاشمی القریشی نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کے اہلِ خانہ کے افراد بھی تھے جو اس دھماکے میں مارے گئے تھے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔