آسٹریلیا نے مصر کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا جب کہ ہیگ اور لندن میں بھی مصری سفراء کو طلب کیا گیا۔
آسٹریلیا نے اپنے ایک صحافی اور اس کے الجزیرہ کے ساتھیوں کو کالعدم اخوان المسلمین کی حمایت کے الزام میں قید کی سزا دینے پر مصر کے سفیر کو طلب کر کے ان سے احتجاج کیا ہے۔
پیر کو آسٹریلوی صحافی پیٹر گریسٹے، مصری نژاد کینیڈین محمد فہمی اور مصری صحافی باہیر محمد کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی جس پر دنیا بھر کے مختلف رہنماؤں اور صحافتی آزادی کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
منگل کو آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کا کہنا تھا کہ مصر کے نظام انصاف کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے لیکن اس فیصلے سے آسٹریلیا "حیران" رہ گیا۔
"ہاں، ہم مصر کی حکومت کی طرف سے اپنے داخلی نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور اخوان المسلمین سمیت انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
لیکن یہ لازم ہے کہ اس کا باقاعدہ طریقہ کار ہو۔ یہ ضروری ہے کہ فیصلے شفافیت کی بنیاد پر کیے جائیں۔ لہذا ہم گریسٹے کے اہل خانہ سے بات کریں گے۔ ہم مصر کی حکومت سے اس بارے میں بات کریں گے کہ پیٹر گریسٹے کی جلد از جلد گھر واپسی کو ممکن بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔"
پیٹر گریسٹے کے والد جورس گریسٹے نے منگل کو برسبین میں صحافیوں سے گفتگو میں اس سزا کو صحافت کے لیے "سیاہ وقت" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ صحافیوں کی رہائی تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔
"صحافت جرم نہیں ہے یا بھر آپ سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیئے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے۔ ہمارا بیٹا پیٹر ایک ایوارڈ یافتہ صحافی ہے، وہ کوئی مجرم نہیں۔"
مصر نے قاہرہ کی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے غیر ملکی ردعمل کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
ادھر امریکہ نے بھی صحافیوں کو سنائی جانے والی سزا کی مذمت کی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ تین صحافیوں اور 15 افراد کو سنایا جانے والا فیصلہ "حقیقی انصاف کے عمل کے متعدد بنیادی اصولوں کی نفی کرتا، جو مصر کے عبوری دور کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہے۔"
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے نے صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مصر میں ذرائع ابلاغ کو "تحفظ دیا جانا چاہیئے ناکہ ان پر مقدمات چلائے جائیں"۔
ٹی وی نیٹ ورک الجزیرہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ اس کے صحافی صرف خبروں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
ادارے کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ سواغ نے عدالتی فیصلے کو "حیران کن" قرار دیتے ہوئے کہا کہ الجزیرہ اپنے صحافیوں کی رہائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر مہم جاری رکھے گا۔
ہیگ اور لندن میں عہدیداروں نے اس فیصلے پر مصر کے سفراء کو طلب کیا۔
گریسٹے، فہمی اور باہیر کو گزشتہ سال دسمبر میں ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ مصری حکام کی طرف سے الجزیرہ کے بیورو کو بند کرنے کے بعد کام کر رہے تھے۔
پیر کو آسٹریلوی صحافی پیٹر گریسٹے، مصری نژاد کینیڈین محمد فہمی اور مصری صحافی باہیر محمد کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی جس پر دنیا بھر کے مختلف رہنماؤں اور صحافتی آزادی کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
منگل کو آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کا کہنا تھا کہ مصر کے نظام انصاف کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے لیکن اس فیصلے سے آسٹریلیا "حیران" رہ گیا۔
"ہاں، ہم مصر کی حکومت کی طرف سے اپنے داخلی نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور اخوان المسلمین سمیت انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
لیکن یہ لازم ہے کہ اس کا باقاعدہ طریقہ کار ہو۔ یہ ضروری ہے کہ فیصلے شفافیت کی بنیاد پر کیے جائیں۔ لہذا ہم گریسٹے کے اہل خانہ سے بات کریں گے۔ ہم مصر کی حکومت سے اس بارے میں بات کریں گے کہ پیٹر گریسٹے کی جلد از جلد گھر واپسی کو ممکن بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔"
پیٹر گریسٹے کے والد جورس گریسٹے نے منگل کو برسبین میں صحافیوں سے گفتگو میں اس سزا کو صحافت کے لیے "سیاہ وقت" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ صحافیوں کی رہائی تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔
"صحافت جرم نہیں ہے یا بھر آپ سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیئے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے۔ ہمارا بیٹا پیٹر ایک ایوارڈ یافتہ صحافی ہے، وہ کوئی مجرم نہیں۔"
مصر نے قاہرہ کی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے غیر ملکی ردعمل کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
ادھر امریکہ نے بھی صحافیوں کو سنائی جانے والی سزا کی مذمت کی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ تین صحافیوں اور 15 افراد کو سنایا جانے والا فیصلہ "حقیقی انصاف کے عمل کے متعدد بنیادی اصولوں کی نفی کرتا، جو مصر کے عبوری دور کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہے۔"
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے نے صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مصر میں ذرائع ابلاغ کو "تحفظ دیا جانا چاہیئے ناکہ ان پر مقدمات چلائے جائیں"۔
ٹی وی نیٹ ورک الجزیرہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ اس کے صحافی صرف خبروں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
ادارے کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ سواغ نے عدالتی فیصلے کو "حیران کن" قرار دیتے ہوئے کہا کہ الجزیرہ اپنے صحافیوں کی رہائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر مہم جاری رکھے گا۔
ہیگ اور لندن میں عہدیداروں نے اس فیصلے پر مصر کے سفراء کو طلب کیا۔
گریسٹے، فہمی اور باہیر کو گزشتہ سال دسمبر میں ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ مصری حکام کی طرف سے الجزیرہ کے بیورو کو بند کرنے کے بعد کام کر رہے تھے۔