شیعہ برادری کے قتل عام کی ذمہ داری لشکرجھنگوی قبول کرچکا ہے، لیکن نہ جانے کیوں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی؟
واشنگٹن —
دیار غیر میں رہتے ہوئے جہاں آُ پ کو اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے غیر معمولی محبت کا احساس ہونے لگتا ہے وہیں آپ اپنے ملک اور ثقافت پر بھی فخر کرنے لگتے ہیں۔ اپنے ملک میں ہونے والی ہر تبدیلی کے بارے میں ہر لمحہ جاننا چاہتے ہیں۔
لیکن گزشتہ چند ماہ سے میرے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں نے مجھے ایک خوفزدہ پاکستانی بنا دیا ہے۔ ابھی کراچی میں امن کے قیام کا کوئی حل نہیں نکالا گیا تھا اور اب شیعہ برادری کے قتل عام سے ملک میں خونریزی کی ایک نئی لہر نے جنم لے لیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق دس جنوری سے لیکر اب تک 200 سے زائد شیعہ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے افسوس اور ہمدردی کے بیانات کے سوا سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ شیعہ برادری کے قتل عام کی ذمہ داری لشکر جھنگوی قبول کر چکا ہے لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ حکومت یا پاکستان آرمی ابھی تک اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکی۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں درجنوں سوال جنم لیتے ہیں جنہیں میں آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔۔۔
مرنے والے اور مارنے والے جب آپ کے سامنے ہیں تو کون سی ایسی طاقت ہے جو آپ کو ان مظلوموں کی داد رسی اور ظالموں کے خلاف کاروائی کرنے سے روک رہی ہے؟
میں آج تک سنتی آئی ہوں کہ لشکر طیبہ اور کئی انتہاپسند فرقہ وارانہ تنظیمیں پاکستانی آئی ایس آئی کی پیدا کردہ تنظیم ہے۔ کیا آئی ایس آئی آج بھی ان تنظیموں کو تحفظ دے رہی ہے؟
اگر سوات کی طرح کوئیٹہ کو بھی فوج کے حوالے کردیا جائے تو کیا دہشت گردی کے اس رحجان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟
انتہا پسند تنظیموں کے ٹھکانوں اور کارکنوں کی خبر رکھنے والی سیکیورٹی ایجنسیاں اگر ان تنظیموں کے خلاف آپریشن کا خلوص نیت سے فیصلہ کرلیں تو کیا یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو گا؟
شیعہ برادری کو کافر قرار دے کر انہیں قتل کرنے والوں کو زمین پر خدا بننے کا حق کس نے دیا ہے؟
پاکستان میں انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیموں کی مالی مدد کرنے والے
’دوست ممالک ‘ سے ان کی امداد روکنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد ی کی ہر کاروائی میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کا دعوی کرنے والی حکومت کب تک اپنی ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑا سکتی ہے؟
گورنر بلوچستان کے بیان کے مطابق ہمارے ادارے ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے سے خوف زدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خوف زدہ ادارے اگر ملک کی سیکیورٹی کو یقینی نہیں بنا سکتے تو ان کے قیام کا کیا مقصد ہے؟
اب وردہ بولے گی Facebook
لیکن گزشتہ چند ماہ سے میرے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں نے مجھے ایک خوفزدہ پاکستانی بنا دیا ہے۔ ابھی کراچی میں امن کے قیام کا کوئی حل نہیں نکالا گیا تھا اور اب شیعہ برادری کے قتل عام سے ملک میں خونریزی کی ایک نئی لہر نے جنم لے لیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق دس جنوری سے لیکر اب تک 200 سے زائد شیعہ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے افسوس اور ہمدردی کے بیانات کے سوا سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ شیعہ برادری کے قتل عام کی ذمہ داری لشکر جھنگوی قبول کر چکا ہے لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ حکومت یا پاکستان آرمی ابھی تک اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکی۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں درجنوں سوال جنم لیتے ہیں جنہیں میں آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔۔۔
مرنے والے اور مارنے والے جب آپ کے سامنے ہیں تو کون سی ایسی طاقت ہے جو آپ کو ان مظلوموں کی داد رسی اور ظالموں کے خلاف کاروائی کرنے سے روک رہی ہے؟
اگر سوات کی طرح کوئیٹہ کو بھی فوج کے حوالے کردیا جائے تو کیا دہشت گردی کے اس رحجان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟
انتہا پسند تنظیموں کے ٹھکانوں اور کارکنوں کی خبر رکھنے والی سیکیورٹی ایجنسیاں اگر ان تنظیموں کے خلاف آپریشن کا خلوص نیت سے فیصلہ کرلیں تو کیا یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو گا؟
پاکستان میں انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیموں کی مالی مدد کرنے والے
’دوست ممالک ‘ سے ان کی امداد روکنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد ی کی ہر کاروائی میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کا دعوی کرنے والی حکومت کب تک اپنی ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑا سکتی ہے؟
گورنر بلوچستان کے بیان کے مطابق ہمارے ادارے ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے سے خوف زدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خوف زدہ ادارے اگر ملک کی سیکیورٹی کو یقینی نہیں بنا سکتے تو ان کے قیام کا کیا مقصد ہے؟
اب وردہ بولے گی Facebook