27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہونے والا جمعیت علماء اسلام ف کا حکومت مخالف آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس دوران، حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن اب تک کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی مذاکراتی دور ہو چکے ہیں، لیکن حکومت مخالف آزادی مارچ اب بھی جاری ہے۔
مبصرین کے مطابق، ’’مولانا فضل الرحمٰن اپنے مطالبات تو تاحال منوا نہیں سکے۔ لیکن، دھرنے کے نتیجے میں وہ حزب اختلاف کے اہم رہنما کے طور پر خود کو منوا چکے ہیں‘‘۔
دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے مارچ کے شرکاء کے وفاقی دارالحکومت قیام کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور سوال اٹھا جا رہا ہے کہ یہ لوگ مزید کتنا عرصہ دھرنا دیے رہیں گے۔
تجزیوں، تبصروں میں سوالات اٹھائےجا رہے ہیں کہ اس مارچ کے اپوزیشن، بالخصوص جے یو آئی ف کو کیا مقاصد و فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اور یہ کہ حکومت شرکاء کو اسلام اباد سے واپس بجھوانے کے لئے کون سا راستہ لے سکتی ہے۔ ذیل میں ہم نے ان پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
حکومت کے ناقدین اور حامی اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑا مجمع اسلام آباد لے آئے ہیں، جو کہ منظم بھی ہے اور تاحال پرجوش بھی۔
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن انتخابات 2018 کے فوراً بعد ہی تحریک چلانا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو حلف نہ اٹھانے کا مشورہ دیا تھا۔ تاہم، ان کے اس مطالبے کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے حمایت نہ مل سکی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک سال سے حکومت مخالف تحریک کی تیاری کر رہے تھے اور انہیں موسم کی شدت اور سیاسی پیچیدگوں کا بھی علم تھا۔
مبصرین کے مطابق، بڑی تعداد میں موجود مظاہرین کو طاقت کے استعمال سے اسلام آباد سے نکالنا کسی صورت دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا اور حکومت کو بہر صورت مذاکرات اور ’کچھ لو کچھ دو‘ کی بنیاد پر معاملات حل کرنا ہوں گے۔
دھرنے کے میدان کا جائزہ لے کر اور شرکاء سے گفتگو کے بعد یہ اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ طویل قیام کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور کھانے پینے کا انتظام بھی۔
تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ اور انہوں نے اپنی سیاست کا اہم موڑ بغیر سوچے سمجھے اور راستے کی سختیوں کا اندازہ لگائے بغیر نہیں اٹھایا ہوگا۔ البتہ، انہیں اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے انتہائی اقدام سے گریز کرنا ہوگا۔
آزادی مارچ سے کیا حاصل ہوا
مبصرین کے مطابق، آزادی مارچ کے نتیجے میں حکومت کو پہلی بار سڑکوں پر سیاسی مذاہمت کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادہ ہوئے ہیں۔
دھرنے کے نتیجے میں اپوزیشن رہنماؤں پر میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندیوں میں نرمی آئی ہے اور رہنماؤں کے خطابات کو براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی آزادی مارچ میں شمولیت رسمی رہی ہے، تاہم اپوزیشن اتحاد کی اب تک کی تصویر/صورت حکومت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ احتجاج کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمٰن واحد اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اگر وہ اپنے مطالبات میں سے چند ایک منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انھیں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی طرف سے چھینے گئے اپنے سیاسی دائرہ کار کو واپس حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
آزادی مارچ کی جاری بحث میں فوج کا کردار ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن انتخابات میں فوج کے کردار کا خاتمہ چاہتے ہیں جو کہ اپوزیشن کے مطالبات میں شامل ہے۔
ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ اداروں کے کردار کے حوالے سے بات تو کی جا رہی ہے۔ تاہم، اس کے لئے سیاسی قوتوں کو بیانات سے بڑھ کر عملی اقدمات اٹھانا ہوں گے۔
حکومت اپوزیشن مذاکرات کیا نتیجہ لائیں گے
صحافی ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے مطالبات میں اہم ترین وزیر اعظم کا استعفیٰ ہے جسے حکومت انتخابی دھاندلی ثابت ہونے سے منسلک کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اگر وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو معاملات بند گلی میں جا سکتے ہیں۔
وزیر مذہبی امور اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے راستے کھلے رکھتے ہیں اور معاملات کو کبھی بھی بند گلی میں نہیں لے کر جائیں گے۔
مظہر عباس کے مطابق، حکومتی کمیٹی حزب اختلاف کے مطالبات پر مذاکرات تو کر رہی ہے۔ تاہم، وہ چوہدری برادران (چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہی) کے ذریعے ہونے والی بات چیت سے نتائج کے لئے زیادہ پرامید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو پارلیمانی تحقیقات پر آمادہ ہو جانا چاہئے اور اگر منظم دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو یقیناً نئے انتخابات ہوں گے اور وزیر اعظم کو مستفی ہونا ہوگا۔
اپوزیشن کے پاس آئندہ کا راستہ کیا
اپوزیشن کی جماعتیں احتجاج کو آگے لے جانے پر منقسم دیکھائی دیتی ہیں اور جے یو آئی ف کی مجلس شوریٰ نے مولانا فضل الرحمٰن کو تجویز کیا ہے کہ وہ مستقبل کے تمام اقدمات حزب اختلاف کی قیادت کی مشاوت سے طے کریں۔
مظہر عباس کے مطابق، مولانا فضل الرحمٰن انتہائی اقدام کی جانب نہیں جانا چاہیں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں حکومت فوج کو معاملات سنبھالنے کی دعوت دے سکتی ہے۔
ایم بی سومرو کا کہنا ہے کہ معاملات کے افہام و تفہیم سے حل کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
دوسری جانب، مولانا فضل الرحمٰن اپنے احتجاج کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کی تجویز پر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔