اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل پر شام کی صورتِ حال کے حوالے سے کوئی "سنجیدہ" قدم اٹھانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی ہے۔
پیر کو ابوظہبی کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں عالمی ادارے کے سربراہ نے سلامتی کونسل سے اپیل کی کہ وہ شام کے بحران کے لیے سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھائے۔
واضح رہے کہ مغربی ممالک گزشتہ کئی ماہ سے سلامتی کونسل سے ایک ایسی قرارداد منظور کرانے کی کوشش میں مصروف ہیں جس میں حزبِ اختلاف کے خلاف کاروائیوں پر شامی حکومت کی سرزنش کی جائے تاہم کونسل کے دو مستقل اراکین چین اور روس اس نوعیت کی قرارداد کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ایک اہم فوجی اتحادی روس کا موقف رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد میں صرف شامی حکومت کو ہی نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کو بھی نشانہ بنایا جانا چاہیے۔
ابو ظہبی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے شام میں قیامِ امن کے لیے عرب لیگ کی کوششوں کی تعریف کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ عرب ممالک کی نمائندہ 22 رکنی تنظیم اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
یاد رہے کہ شامی حکومت کی اجازت سے عرب لیگ کے ڈیڑھ سو سے زائد مبصرین ان دنوں شام میں موجود ہیں جہاں وہ آبادیوں سے فوجیوں کے انخلا، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کی روک تھام سے متعلق شامی حکومت کی یقین دہانیوں کا جائزہ لینے کے لیے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں۔
دریں اثنا مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود شامی پارلیمان کے ایک رکن وفاداریاں تبدیل کرکے حزبِ مخالف سے آن ملے ہیں۔
شام کے وسطی شہر حمص سے منتخب رکنِ اسمبلی عماد غالیون نے اتوار کی شب عرب ٹیلی ویژن 'العریبیہ' کو بتایا کہ ان کے شہر میں "آفت" کی سی صورتِ حال ہے اور الاسد حکومت کی حامی افواج رہائشیوں کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہیں۔
شامی حکومت پہ بڑھتے ہوئے داخلی دباؤ کا ایک اور مظہر حزبِ اختلاف کے اہم اتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' کی جانب سے پیر کو سامنے آنے والا یہ بیان ہے جس میں اتحاد نے شامی مسلح افواج سے بغاوت کرنے والےفوجیوں کی تنظیم 'فری سیرین آرمی' کے ساتھ تعاون بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
دریں اثنا سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' کے مطابق شامی افواج کے ایک بریگیڈئر جنرل کو دہشت گردوں نے پیر کو اس وقت قتل کردیا جب وہ اپنی گاڑی میں دفتر کی طرف جارہے تھے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ برس مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شامی حکومت بیشتر ہلاکتوں کی ذمہ داری مسلح دہشت گردوں پر عائد کرتی ہے جنہوں نے حکام کے بقول حالیہ شورش کے دوران دو ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا ہے۔