|
ویب ڈیسک—بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کی جانب سے ’بلوچ راجءِ مچی‘ کے نام سے جلسے کا انعقاد کیا جا رہا ہے جب کہ شہر میں صورت حال کشیدہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اتوار کو گوادر سے ملنے والی معلومات کے مطابق جلسہ گاہ کے قریب فائرنگ ہوئی جس کی زد میں بعض افراد آئے ہیں جنہیں جی ڈی اے اسپتال گوادر منتقل کیا گیا ہے۔
سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ کے مطابق گوادر میں فون اور انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے مقامی ضلعی انتظامیہ کی جانب اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
فائرنگ کی زد میں آنے والے ایک شخص کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف گوادر میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے اس جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے قافلوں کو روکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود گوادر میں لوگوں کا جم غفیر ہے اور بلوچ عوام جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں اور دیگر مسائل پر اس ریفرنڈم کا حصہ بنے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرم رکن سعدیہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں ظہور شاہ ہاشمی چوک پدی سر کے مقام پر ’بلوچ راجءِ مچی‘ کا انعقاد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شدید گرمی میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکا جلسے پہنچے ہیں اور اپنی رہنما ماہ رنگ بلوچ کی تقریر سننے آئے ہیں۔
سعدیہ کے بقول حکومت نے گوادر میں انٹرنیٹ اور پی ٹی سی ایل براڈ بینڈ کی سہولت منقطع کر رکھی ہے جس سے جلسہ کی سوشل میڈیا پر کوریج ممکن نہیں ہے جب کہ لوکل اور نیشنل میڈیا میں پہلے ہی بلوچ راجءِ مچی کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی گوادر میں کشیدگی اور سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کی ویڈیوز گردش میں ہیں۔ لیکن ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ادھر ہفتے کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں فورسز کی جانب سے یکجہتی کمیٹی کے قافلے پر فائرنگ کے خلاف مستونگ اور کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دیا گیا ہے۔
اس واقعے کے خلاف اتوار کو مستونگ، نوشکی، دالبندین میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔
SEE ALSO: مستونگ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلے پر فائرنگ، متعدد افراد زخمیخیال رہے گزشتہ روز مستونگ میں فورسز کی فائرنگ سے 14 افراد زخمی ہو گئے تھے جن میں سے چار کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے بیشتر شہروں سے نکلنے والے قافلے رکاوٹیں عبور کر کے تربت ڈی بلوچ، تلار اور بزی ٹاپ تک پہنچ چکے ہیں۔
یکجہتی کمیٹی کی سعدیہ بلوچ نے بتایا کہ کراچی سے آنے والے ایک قافلے کو کنڈ ملیر کے مقام پر فورسز نے روک رکھا ہے۔
ان کے بقول اس قافلے میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں جو شدید گرمی میں خوراک اور پانی کے بغیر کنڈ ملیر میں پھنس گئے ہیں۔
گوادر میں جاری صورتِ حال سے متعلق تاحال سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم جمعے کو وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو حکومت سے مزاکرات کی دعوت دی تھی۔
اسمبلی سے خطاب میں ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جلسے کے لیے 28 جولائی کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس دن گوادر میں سی پیک کے پانچویں فیز کا آغاز ہونے والا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس انٹیلی جینس رپورٹس ہیں کہ امن و مان کی صورتِ حال خراب کرنے کے لیے 28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے کو کالعدم عسکری تنظیم بی ایل اے نشانہ بنا سکتی ہے۔
اس سے قبل بھی حکومتی نمائندوں نے بی وائے سی کے جلسے کی ٹائمنگ اور گوادر پر اس کے انعقاد پر سوال اٹھائے تھے۔
تاہم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائے سی اس جلسے کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل جیسے ایشوز پر عوامی ریفرنڈم قرار دیتے ہیں۔