رسائی کے لنکس

ضلع کرم میں کشیدگی کا پانچواں دن، 35 افراد ہلاک اور 166 زخمی


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان زمین کے تنازع پر تصادم شروع ہوا تھا جس کے بعد یہ ہونے والی جھڑپیں فرقہ ورانہ رخ اختیار کر گئیں۔
  • مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقے میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔
  • حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
  • جمعے کو مصالحتی جرگے کی جانب سے فائر بندی کی کوششوں کے باوجود کشیدگی ختم نہیں ہو سکی ہے۔

پشاور—افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں متحارب قبائلی فریقین کے درمیان جھڑپیں اتوار کو پانچویں روز بھی جاری ہیں۔

ضلع کرم کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نے اتوار کی صبح ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ متحارب قبائل کے درمیان بدھ کو شروع ہونے والا فائرنگ کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری ہے اور مختلف ذرائع سے جمع کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 35 افراد ہلاک اور 166 زخمی ہوگئے ہیں۔

پولیس عہدے دار کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان زمین کے تنازع پر تصادم شروع ہوا تھا جس کے بعد مختلف علاقوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے بقول ان جھڑپوں میں اب تک پاراچنار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اور دیگر اسپتالوں سے جمع کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق 166 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے متحارب فریقین کے درمیان فی الوقت جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ متحارب فریقین سے مورچے خالی کرائے جا رہے ہیں اور ان مورچوں میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔

قبل ازیں کرم میں جاری جھڑپوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں سرکاری طور پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔

کرم کے ضلعی مرکز پارا چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضال کے مطابق پانچ روز کے دوران مجموعی طور پر درجنوں افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

کرم سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ خان نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جھڑپیں چوں کہ مختلف دیہات تک پھیل چکی ہیں۔ ان علاقوں میں مواصلاتی رابطے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے جانی اور مالی نقصانات کے مصدقہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ضلعی سول اور سیکیورٹی عہدے داروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ، فورسز اور جرگہ فائر بندی میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقے میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری موجود ہونے کے باوجود حالات پر قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔

قبائلی صحافی علی افضل نے بھی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومتی ادارے از خود یہاں پر قبائلی و فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔

پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع کرم کے علاقے بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین زمین کے تنازع پر فائرنگ کا سلسلہ چار روز قبل شروع ہوا جس کے بعد پیواڑ ، تنگی، بالشخیل، خار کلے، مقبل، کنج علی زئی اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاقوں میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور فائرنگ کے واقعات نے خوں ریز مذہبی فسادات کا رخ اختیار کر لیا ہے۔

علی افضل اور ملک عطاء اللہ کا کہنا ہے کہ متحارب قبائلی اب ایک دوسرے کے گاؤں دیہات کو نہ صرف جدید اور خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بناتے ہیں بلکہ ضلعی مرکز پارا چنار اور کرم کے دوسرے بڑے شہر سدہ پر بھی درجنوں میزائل فائر کیے گئے ہیں۔

ان جھڑپوں کے نتیجے میں پاراچنار سے پشاور مین روڈ بھی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے جب کہ علی افضل کے بقول پاراچنار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال اور بازاروں میں ادویات ختم ہو گئیں ہیں۔

کرم سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی انجنیئر حمید حسین اور ممبر صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بات چیت میں ان جھڑپوں سے پیدا شدہ صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے اور حکومت سے فوری فائر بندی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مصالحت کی کوششیں

کرم کے دو مختلف علاقوں میں بدھ کے روز جب جھڑپیں شروع ہوئیں تو ملحقہ اضلاع ہنگو اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ ممبران نے فریقین میں فوری طور پر جنگ بندی اور مصالحت کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔

جرگہ ممبران نے جمعے کو از خود ضلعی انتظامی اور پولیس عہدے داروں سمیت متاثرہ علاقوں بوشہرہ اور مالی خیل جاکر فریقین کو جنگ بندی پر راضی کیا تھا مگر بعد میں متحارب فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ شروع کر دی۔

ملک عطاء اللہ نے کہا کہ متحارب فریقین میں جنگ و جدل کا یہ سلسلہ زمینی تنازعات پر پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے جب کہ 2012 سے تو مسلسل فائرنگ اور قتل و غارت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی، ہنگو اور اورکزئی کے جرگوں کی جانب سے مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں لہذا حکومت فوری طور پر تمام ضم شدہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ایک با اختیار جرگہ تشکیل دے۔

عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے سربراہ میاں افتخار حسین نے بھی اتوار کو پارٹی کے صوبائی نائب صدر انجینئر شاہی خان شیرانی کے سربراہی میں ایک مصالحتی جرگہ تشکیل دے کر کرم روانہ کر دیا ہے۔

اس جرگہ میں ہنگو، اورکزئی اور کوہاٹ کے علاوہ جنوبی اور شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما بھی شامل ہیں۔

ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ فائربندی کے لیے ہنگواور اورکزئی سے امن جرگہ علاقے میں پہنچ کر فریقین کے عمائدین سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

گورنر اور وزیرِ اعلی اور ارکانِ اسمبلی کا اظہارِ تشویش

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں کرم کے متحارب قبائلیوں کے درمیان مسلح جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر جنگ بندی اور تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

رکن قومی اسمبلی انجنیئر حمید حسین، سابق وفاقی وزیر ساجد طوری اور رکن صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے خونریز جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلع کرم میں پانی، راستوں، جنگل اور زمین کی ملکیت کے تنازعات پر بار بار معمولی فائرنگ کے واقعات سے ضلع بھر میں جھڑپیں شروع ہو جاتی ہیں جو کہ افسوس ناک ہیں۔

راہنماوں نے فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی اور کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور دیگر ادارے اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور بدامنی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

کرم میں پولیس اسٹیشن پر حملہ

ایک روز قبل خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم میں جاری جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کیا گیا ہے جس میں اہل کاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

پولیس کے بیان میں یہ حملہ مبینہ شرپسندوں کی جانب سے کرنے کا دعوٰی کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ حملہ سینٹرل کرم کے سرپاخ تھانے پر کیا گیا تھا۔ حملے میں ایک اہل کار ہلاک جب کہ 5 اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG