پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال اور ہدف بنا کر قتل کے واقعات سے متعلق مقدمے کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ صوبے میں حالات بدستور خراب ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو مقدمے کی سماعت میں کہا کہ بلوچستان میں تعینات فرنٹیئر کور کے خلاف اختیارات سے تجاوز کے الزامات پر جو لوگ شہادت دینے کے لیے سامنے آتے ہیں چند روز بعد ان کی لاشیں ملتی ہیں جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔
عدالت نے کہا کہ صوبے میں حالات بہتر ہونے کے بجائے روز بروز بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بلا کر پوچھا جائے کہ معاملات کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے لاپتہ افراد کے بارے میں فرنٹئیر کور ’’ایف سی‘‘ بلوچستان کے آئی جی میجر جنرل عبید اللہ خٹک کی حالیہ نیوز کانفرنس پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
میجر جنرل عبیداللہ نے رواں ماہ کہا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں ایف سی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور صوبے میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی سرگرم ہیں۔
لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں تو وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان پر نظر رکھے۔
سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے مبینہ جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے 123 افراد میں سے بیشتر کے بارے میں معلومات حاصل کی جا چکی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک چھ رکنی ٹیم بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے قابل عمل تجاویز بھی تیار کر رہی ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عظمٰی یہ کہہ چکی ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات سے متاثر ہونے والے خاندانوں میں سے 80 فیصد نے ان واقعات کی ذمہ داری ایف سی کے اہلکاروں پر عائد کی ہے۔
لیکن آئی جی ’’ایف سی‘‘ نے عدالت کو بتایا تھا کہ شدت پسند فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کی وردی پہن کر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کا مقصد ملکی اداروں کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنا ہے۔
عدالت عظمٰی نے حالیہ دنوں میں بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔
بلوچستان کی صورت حال میں بہتری کے لیے حالیہ دنوں میں کئی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں اور حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر متفق ہے۔