ایف سی سنجیدہ ہو تو امن قائم ہو سکتا ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری

عدالت عظمیٰ نے بلوچستان کی صورت حال پر ایف سی کی رپورٹ کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس پر فرنٹیئر کور کے سربراہ کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صوبہ بلوچستان میں امن عامہ اور انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سلامتی سے متعلق اداروں کی سرزنش کی ہے۔

صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو اسلام آباد میں کی۔

سماعت کے دوران خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجہ محمد ارشاد نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں تعینات سرکاری اداروں کو ہدف تنقید بنا کر ریاست مخالف ایجنڈے کو دوام بخشا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قسم کے سنگین بیانات دینے سے گریز کریں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات انتہائی غیر تسلی بخش ہیں لیکن اگر نیم فوجی فرنٹیئر کور (ایف سی) ان کو سدھارنے میں سنجیدہ ہو تو ایسا کرنا ممکن ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کے آئینی حق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

عدالت نے صوبے کی صورت حال پر ایف سی کی رپورٹ کو بھی یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس پر فرنٹیئر کور (بلوچستان) کے سربراہ میجر جنرل عبیداللہ خان خٹک کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔

مقدمے کی آئندہ سماعت 3 ستمبر کو ہو گی۔