رسائی کے لنکس

لاپتا افراد: ایف سی کے موقف پر عدالت عظمیٰ کا عدم اطمینان


چیف جسٹس افتخار محمد چودھری (فائل فوٹو)
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری (فائل فوٹو)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر مقامی انتظامیہ صوبے میں امن و امان یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں تعینات نیم فوجی سکیورٹی فورس ’فرنٹیئر کور‘ (ایف سی) نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ صوبے سے لاپتا ہونے والے درجنوں افراد اس کی تحویل میں ہیں۔

لاپتا افراد سے متعلق مقدمے میں عدالت عظمیٰ میں منگل کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں ایف سی نے کہا ہے کہ یہ بات محکمانہ تحقیقات سے بھی ثابت ہو چکی ہے۔

فرنٹیئر کور نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند ’’دہشت گردی اور دیگر جرائم کی وارداتوں‘‘ کے لیے ایف سی اہلکاروں کی مخصوص وردی کا استعمال بھی کر رہے ہیں، جو ادارے کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

لیکن مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایف سی کے موقف پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس نیم فوجی سکیورٹی فورس اور صوبے کے اعلیٰ عہدے داروں کو بدھ کو وضاحت کے لیے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر مقامی انتظامیہ صوبے میں امن و امان یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

سپریم کورٹ نے عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے دفاع اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو طلب کرتے ہوئے اُنھیں تحریری طور پر اس بات کا اعتراف کرنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ لاپتا افراد کو عدالت کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

اس سے قبل عدالتِ عظمیٰ نے ایف سی کو 24 جولائی تک اُن آٹھ افراد کو پیش کرنے کی ہدایت کی تھی جنھیں مبینہ طور پر بلوچستان کے مختلف حصوں سے تحویل میں لیا گیا ہے۔

مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے پیر کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں سرگرم بلوچستان لبریشن آرمی ’بی ایل اے‘ نامی عسکری تنظیم اُن افراد کو قتل کرنے میں ملوث ہے جو پاکستان مخالف کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکاری ہیں۔

انسانی حقوق کی علم برادر تنظیموں کا الزام ہے کہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے اور حکومت مخالف رجحانات رکھنے والے بلوچ شہریوں کی جبری گمشدگی کی ذمہ دار فرنٹیئر کور ہے۔
XS
SM
MD
LG