حالیہ برسوں میں جنوبی صوبہ سندھ کی طرح یہاں سے بھی ہندوؤں کی نقل مکانی اور دیگر ملکوں کو منتقلی کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری بدامنی سے یہاں آباد مذہبی اقلیتیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔
اغوا برائے تاوان، ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کے تناظر میں بلوچستان کی ہندو برادری میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں جنوبی صوبہ سندھ کی طرح یہاں سے بھی ہندوؤں کی نقل مکانی اور دیگر ملکوں کو منتقلی کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز اور ہندو برادری کے ایک رہنما بسنت لعل گلشن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان کے ہندو وطن سے محبت کرتے ہیں اور وہ علاقہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے لیکن ان کے بقول ان حالات میں لوگوں کو سمجھانا ذرا مشکل ہو گیا ہے۔
"اقلیتیں تحفظ مانگتی ہیں وہ نہیں دیا جا رہا ہے لہذا مایوسی تو اقلیتوں میں ہے اس کے بعد یہاں دہشت گرد تنظیمیں ہیں، بے روزگاری ہے بہت سے اور ایلیمنٹس ہیں جن کی وجہ سے ہندوؤں کو اغوا بھی کیا جاتا رہا ہے لوٹ مار بھی ہوئی ہے بہت سے قتل بھی ہوئے ہیں۔۔۔ تو یہ فطرت ہے انسان کی یہ نقل مکانی کرتا ہے محفوظ مقام پر، پرندے بھی کرتے ہیں انسان بھی کرتے ہیں۔"
لیکن ساتھ ہی بسنت لعل نقل مکانی کی مذمت بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت منتقل ہونے والے اکثر لوگ بلوچستان واپس آگئے کیونکہ وہاں بھی انھیں ماحول سازگار نہیں ملا۔
"سینکڑوں کی تعداد میں یہاں سے گئے ہیں بھارت مائگریٹ کر کے لیکن وہاں چونکہ ان کو برابر کے حقوق نہیں دیے جارہے، ان کو مہاجر سمجھا جارہا ہے ان کا مطلب دوسرے درجے کا شہری تو اس سے وہ مایوس ہو کر وہ واپس اپنے ملک آتے ہیں، آرہے ہیں۔"
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس مسئلے پر خاص توجہ دی اور اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے یا انھیں ہدف بنانے کی کوششوں کے خلاف بھرپور کارروائی بھی کی گئی۔
"ماضی میں ہندو برادری کی بڑی عزت ہوتی تھی، بیچ میں ایک ایسا دور آیا جس میں ان کو بھی اغواء کرنے کے واقعات ہونے لگے خاص طور پر تاوان کے لیے، تو حکومت بلوچستان اس پر بہت سنجیدہ ہے اور ہم نے ان منظم جرائم کو بڑی حد تک ختم کیا ہے، جو گروپس تھے اغواء کاروں کے انھیں پکڑا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے معاشی مسائل یا دیگر ذاتی وجوہات کی وجہ سے بھی نقل مکانی کی ہو لیکن حکومت صوبے میں آباد تمام لوگوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔
اغوا برائے تاوان، ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کے تناظر میں بلوچستان کی ہندو برادری میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں جنوبی صوبہ سندھ کی طرح یہاں سے بھی ہندوؤں کی نقل مکانی اور دیگر ملکوں کو منتقلی کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز اور ہندو برادری کے ایک رہنما بسنت لعل گلشن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان کے ہندو وطن سے محبت کرتے ہیں اور وہ علاقہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے لیکن ان کے بقول ان حالات میں لوگوں کو سمجھانا ذرا مشکل ہو گیا ہے۔
"اقلیتیں تحفظ مانگتی ہیں وہ نہیں دیا جا رہا ہے لہذا مایوسی تو اقلیتوں میں ہے اس کے بعد یہاں دہشت گرد تنظیمیں ہیں، بے روزگاری ہے بہت سے اور ایلیمنٹس ہیں جن کی وجہ سے ہندوؤں کو اغوا بھی کیا جاتا رہا ہے لوٹ مار بھی ہوئی ہے بہت سے قتل بھی ہوئے ہیں۔۔۔ تو یہ فطرت ہے انسان کی یہ نقل مکانی کرتا ہے محفوظ مقام پر، پرندے بھی کرتے ہیں انسان بھی کرتے ہیں۔"
لیکن ساتھ ہی بسنت لعل نقل مکانی کی مذمت بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت منتقل ہونے والے اکثر لوگ بلوچستان واپس آگئے کیونکہ وہاں بھی انھیں ماحول سازگار نہیں ملا۔
"سینکڑوں کی تعداد میں یہاں سے گئے ہیں بھارت مائگریٹ کر کے لیکن وہاں چونکہ ان کو برابر کے حقوق نہیں دیے جارہے، ان کو مہاجر سمجھا جارہا ہے ان کا مطلب دوسرے درجے کا شہری تو اس سے وہ مایوس ہو کر وہ واپس اپنے ملک آتے ہیں، آرہے ہیں۔"
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس مسئلے پر خاص توجہ دی اور اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے یا انھیں ہدف بنانے کی کوششوں کے خلاف بھرپور کارروائی بھی کی گئی۔
"ماضی میں ہندو برادری کی بڑی عزت ہوتی تھی، بیچ میں ایک ایسا دور آیا جس میں ان کو بھی اغواء کرنے کے واقعات ہونے لگے خاص طور پر تاوان کے لیے، تو حکومت بلوچستان اس پر بہت سنجیدہ ہے اور ہم نے ان منظم جرائم کو بڑی حد تک ختم کیا ہے، جو گروپس تھے اغواء کاروں کے انھیں پکڑا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے معاشی مسائل یا دیگر ذاتی وجوہات کی وجہ سے بھی نقل مکانی کی ہو لیکن حکومت صوبے میں آباد تمام لوگوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔