پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے اس سب سے بڑے صوبے میں مختلف اقدامات کی بدولت سال 2015ء میں ماضی کی نسبت بدامنی پر قابو پانے میں قابل ذکر حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
صوبائی وزارت داخلہ کی طرف سے وائس آف امریکہ کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال دیسی ساختہ بم دھماکوں، بارودی سرنگوں کے پھٹنے اور دیگر ایسے ہی پرتشدد 520 کے قریب واقعات میں 232 افراد ہلاک اور 280 کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔
ان واقعات میں پولیس، ایف سی اور لیویز پر بھی حملے شامل ہیں اور مرنے والوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد 64 بتائی گئی۔
ایک سیاسی معاہدے کے تحت گزشتہ ماہ ہی بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے سردار ثنا اللہ زہری کا کہنا ہے وہ شورش پسندی میں ملوث عناصر سے کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں کیونکہ ایسی پرتشدد کارروائیوں پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ صوبے میں رہنے والوں کا تعلق ملک کے کسی بھی شہر سے ہو، انھیں ہدف بنا کر قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے کیونکہ یہ سب پاکستانی ہیں۔
"میں ان لوگوں سے پھر کہنا چاہتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کی میز پر ہم مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔۔۔ لیکن اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم بات چیت نہیں کرتے اور فورسز کو بھی ماریں گے بے گناہ لوگوں کو بھی ماریں گے تو میں نے پہلے بھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اب بھی اس پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔"
وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ نو سالوں میں صوبے میں ہونے والے مختلف واقعات اور جرائم کی شرح کے مقابلے میں 2015ء میں یہ تناسب سب سے کم رہا ہے۔
ایسے واقعات میں جہاں سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کی وجہ سے کمی آئی ہے وہیں مبصرین کے مطابق مختلف عسکریت پسند دھڑوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے شورش پسندی میں ماضی جیسی شدت برقرار نہیں رہی۔
تجزیہ کار رشید بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"تنظیموں کے اندر کافی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، حیربیار مری اور اللہ نذر کے درمیان اختلافات ہیں، براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل کے درمیان اختلافات ہیں، ان اختلافات کے باعث اب پہلے کی نسبت وہ تقسیم ہو گئے ہیں۔"
اسی دوران حکومت کی طرف سے ہتھیار پھینک کر ریاست کی عملداری تسلیم کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے بھی عام معافی اور مالی مراعات کے اعلان کے بعد سیکڑوں جنگجوؤں نے اپنے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری شورش پسندی کے علاوہ جبری گمشدگیوں اور لاشوں کی برآمدگی کے معاملات بھی باعث تشویش رہے ہیں لیکن ایسے واقعات میں بھی ماضی کی نسبت قابل ذکر کمی دیکھی گئی ہے۔