بلوچستان کے علاقے مستونگ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری کے قافلے کے قریب جمعہ کو دھماکے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور لگ بھگ 40 زخمی ہو گئے ہیں۔
حکام کے بقول سینیٹ کے ڈپٹی چئیر مین مو لانا الغفور حیدری جمعہ کو اپنی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) مستونگ کے زیر اہتمام ایک مدرسے میں دستاربندی کی تقریب میں شرکت کے بعد جونہی اپنے قافلے کے گاڑیوں کی طرف بڑھے تو ایک دھماکا ہوا۔
دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کئی افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ سینٹ کے ڈپٹی چئیرمین مولانا عبدالغفور حیدری سمیت چالیس افراد زخمی ہوئے۔
زخمیوں کو فوری طور پر سرکاری اور نجی گاڑیوں میں پہلے مستونگ اور بعد میں کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
اسٹنٹ کمشنر مستونگ ممتاز احمد کھیتران نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے میں پچیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور چالیس زخمیوں کو مختلف اسپتالو ں میں منتقل کیا گیا ہے جن میں سے انہوں نے دس کی حالت تشویشناک بتائی ہے۔
اسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے موقع پر موجود شواہد کو جمع کیا جا رہا ہے اور ابھی تک مبینہ خودکش حملہ آور کا سر وغیر ہ نہیں ملا۔
دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔
مستونگ صوبائی دارلحکومت جنوب میں کوئٹہ سے کراچی جانے والی قومی شاہراہ پر واقع ہے اور اس ضلع میں جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کے درجنوں مدارس ہیں۔
ضلع مستونگ سے ہی ایک راستہ کوئٹہ سے ایران کی سرحد کی طر ف نکلتا ہے اسی ضلع کے حدود میں چند سال پہلے کو ئٹہ سے ایران جانے والے شیعہ زائرین کی بسوں پرکئی بار خون ریز حملے کیے گئے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جمعیت علما اسلام (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمان پر دو سال قبل صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ میں خود کش حملہ ہو چکا ، تاہم ’بلٹ پروف‘ گاڑی میں ہونے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن اس حملے میں محفوظ رہے۔
اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے ایک اور اہم رہنما مولانا محمد خان شیرانی بھی کئی بار قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے ہیں۔