صوبہٴ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کےلئے جہاں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کی حمایت کرنے والی دو قوم پرست جماعتوں کے رہنما کافی سرگرم عمل ہیں، وہاؒں اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے مسلم لیگ ن کے باغی ارکان اسمبلی، مسلم لیگ ق اور حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان بھی کافی فعال ہیں۔
گزشتہ دو دنوں کے دوران، وزیر اعلیٰ نواب ثنا ءاللہ کی اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے پانچ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کی حمایت سے تادم تحریر ہاتھ کھینچ چکے ہیں، صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کو وزیر اعلیٰ برطرف کر چکے ہیں وزیر اعلیٰ کے دو مشیر (جن کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر ہوتا ہے) میر امان اللہ نوتینزئی اور شہزادہ احمد علی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ادھر، مسلم لیگ ن کے دو دیگر ارکان جان محمد جمالی اور سردار صالح بھوتانی بھی باغیوں کے کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں۔
مسلم لیگ ق کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر عبدلقدوس بزنجو نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن کے مزید ارکان اُن کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کو اب 40 ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ناراض ارکان اسمبلی سے رابطے جاری ہیں جن کے مثبت نتائج جلد نکلیں گے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ سے نیشنل پارٹی کے صدر، وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو، سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وزراء اور ارکان اسمبلی نے ملاقات کی اور اُنھیں اپنی پارٹیوں کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ نیشنل پارٹی نے اگرچہ وزیر اعلیٰ کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ تاہم، اس پارٹی کے ایک رکن اسمبلی میر خالد لانگو نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کئے ہیں اور وہ تاحال خاموش ہیں۔
دوسری طرف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وزرا نواب ایاز جوگیزئی اور عبدالرحیم زیارتوال، نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں نے مسلم لیگ ن کے باغی ارکان کی طرف سے عدم اعتماد کی تحر یک کو سینٹ کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور تحریک کو ہر صورت میں ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی اگرچہ عدم اعتماد کی تحریک کی وجوہات ان پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو فنڈز کی فراہمی میں کمی، دونوں پارٹیوں کے ارکان کو نظر انداز کرنے اور دیگر وجوہات کو قرار دے رہے ہیں۔ لیکن، حکومتی حلقے عدم اعتماد کی تحریک سینٹ کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ وزیر اعلیٰ کو عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹایا گیا تو مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی، جس سے سینٹ میں اس پارٹی کو شاید اکثریت حاصل نہ ہو۔
تحریک عدم اعتماد پر غور کے لئے گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بلوچستان کی اسمبلی کا اجلاس 9 جنوری کو طلب اسمبلی ہال میں طلب کر لیا ہے۔