گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال سے فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مختلف علاقائی زبانوں کے گلوکار سرکاری پروگراموں میں علاقائی موسیقی کو نظر انداز کرنے کا شکوہ کرتے ہیں تو کبھی شائقین کی بے رخی پر ناراض ہوتے ہیں۔ ان تمام حالات نے گلوکاروں اور موسیقاروں کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ ذیل میں چند فنکاروں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
بلوچی، براہوئی، پشتو، سرائیکی اور اُردو زبانوں کی گلوکارہ کہکشاں خان کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب میں ہزاروں کے مجمع میں گانا گاتی تھی تو لوگوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت دیکھ کر اطمینان ہوتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ بدامنی کے باعث اب تقریبات نہیں ہوتیں۔ اگر ہوتی بھی ہیں تو اُن میں لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔
انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب بعض سرکاری ادارے بھی موسیقی کی تقریبات کبھی کبھار ہی کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی دوسرے بڑے شہروں سے گلوکاروں کو بھاری معاوضوں پر بلا لیتے ہیں اور مقامی گلوکاروں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
کہکشاں کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے آرٹسٹ گلوکاری کی شعبے میں اس توقع سے آتے تھے کہ آمدنی بڑھنے سے وہ اپنے خاندان کی مدد کر سکیں گے، لیکن اب ایسا نہیں رہا۔
فریدہ خان ان دنوں موسیقی سیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آبادی کے ساتھ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کو نئے گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے چاہیئیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کا حوصلہ بڑھانا چاہیے کیونکہ بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح خواتین میں ہے۔
براہوئی موسیقی پر ایم فل کرنے والے عنایت لہڑی کوئٹہ میں مختلف مقامی زبانوں کے گلوکاروں کو گائیکی اور موسیقی سکھاتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے انہوں نے 1995 میں ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کی مدد سے اب تک 30 سے زیادہ گلوکار بن چکے ہیں۔ اور اس وقت 75 نئے شاگرد گلوکاری سیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے گلوکاروں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر مختلف زبانوں کے مقامی گلوکاروں کو موقع دیا جاتا تھا جس سے ان کی گزربسر ہو جاتی تھی۔ لیکن اب فنڈز کی قلت کا جواز بنا کر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے، جس سے گلوکار، موسیقار، سازندے، نغمہ نگار اور اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد بے روزگار ہو گئے ہیں اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔
عنایت لہڑی کا کہنا تھا کہ پہلے نجی شعبے کے بعض میوزک سینٹر گانے ریکارڈ کر کے البم جاری کرتے تھے جس سے بہت سوں کو فائدہ ہوتا تھا لیکن اب اس کی جگہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا نے لے لی ہے اور نجی شعبے کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب لے دے کر صرف شادی کی تقریبات رہ گئی ہیں جن میں سے بعض تقریبات میں گلوکاروں کو بلا لیا جاتا ہے۔ لیکن شادیاں بھی تو سال کے چند مہینوں کے دوران ہی ہوتی ہیں۔ اور سبھی شادیوں میں گلوکاروں کو بلایا بھی نہیں جاتا۔
لہڑی کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورت حال نے بھی گلوکاروں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ بدامنی کے ماحول میں بھلا تقریبات کہاں ہوتی ہیں اور ان میں شرکت کے لیے بھلا کون اپنے گھر سے نکلتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گلوکاروں اور فن کاروں کے معاشی حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ بیماری کی صورت میں وہ اپنا علاج تک کرانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی وہ ضعیف اور معذور گلوکاروں اور فن کاروں کی مدد کے لیے کوئی فنڈ قائم کرے جس سے ان کی گزر بسر ہو سکے۔
آرٹ کونسل کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس فنڈز کی شدید قلت ہے اور وہ فن اور فن کاروں کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔
عنایت لہڑی کا کہنا ہے کہ صوبے کے نوجوانوں کی ایک اچھی تعداد اب بھی مقامی زبانوں میں گائیکی کے لئے اُن کے ادارے میں سکھنے کےلئے آ رہی ہے لیکن گائیکی کا کوئی اچھا مستقبل یا مارکیٹ نہ ہونے کے باعث وہ مایوس ہو کر کوئی اور کام شروع کر دیتے ہیں۔
ان کے مطابق حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور یونیورسٹی اور کالجوں میں موسیقی سکھانے کی کلاسز ہونی چاہیئں۔
بلوچستان میں بدامنی کے واقعات میں اب تک کم از کم پانچ گلوکاروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور گزشتہ اتوار کو ہی خضدار میں براہوئی کے ایک ممتاز گلوکار کو نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا جس سے اس شعبے سے وابستہ افراد ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔