پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کے لیے حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا جو گورنر کے دستخط کے بعد اب نافذ العمل ہے۔
یہ قانون حصول روزگار کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنے والی خواتین سے متعلق ہے۔ اس قانون کے تحت خواتین کو اُن کے دفاتر یا کام کی دیگر جگہوں پر ہراساں کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
تاہم یہ قانون فی الحال صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں لاگو نہیں ہو گا۔ بلوچستان کے اب بھی بہت سے علاقوں میں قبائلی نظام رائج ہے۔
نئے قانون کے تحت اگر کوئی خاتون اپنے ادارے میں کام کرنے والے کسی مرد کے خلاف تحریری شکایت کرتی ہے تو اس کی شنوائی کے لیے پانچ رُکنی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں دو خواتین شامل ہوں گی۔
متعلقہ کمیٹی کے ارکان شکایت کی مکمل تحقیقات کر کے الزام ثابت ہونے پر متعلقہ ملازم کے لیے سزا تجویز کریں گے۔
خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر قانون میں دو طرح کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، ایک کم درجے کی جب کہ دوسری سخت سزا رکھی گئی ہے۔
معمولی جرم ثابت ہونے پر متعلقہ شخص کی ترقی یا تنخواہ میں اضافہ روکنا شامل ہے جب کہ سنگین جرم پر ملازمت سے برخواستگی یا بے دخلی اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکے گی۔
قانون کے تحت ان سزاﺅں کے خلاف ملزم کو اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں خواتین سے متعلق کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر شمع اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں صوبے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے، اُن پر تشدد، اُنھیں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے واقعات کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ لڑکیوں کے اسکولوں اور کالجوں کے سامنے اوباش نوجوانوں کی موجودگی اور بعد میں اُن کی طرف سے طالبات کو فون کے ذریعے دھمکیاں دینے والوں کو سزائیں دلوانے کے لیے بھی قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈاکٹر شمع اسحاق کا کہنا تھا کہ خواتین کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومت مزیدا قدامات بھی کر رہی ہے۔
’’غیرت کے نام پر قتل کا بل 2002ء میں پاس ہوا مگر نافذ نہیں کیا گیا، وہ بھی نافذ کروائیں گے۔ گھریلو تشدد (کی روک تھام) کے حوالے سے بل پاس کیا ہے اُس پر عملدرآمد کی کوشش کریں گے خواتین کو ہراساں کرنے کا بل نافذ کروائیں گے اور ابھی لڑکیوں کی کمر عمری کی شادیوں کے خلاف اور بچوں کے تحفظ سے متعلق بل بھی زیر غور ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شمع اسحاق کا کہنا تھا کہ خواتین کو وراثت میں مناسب حصہ نہ دینے کے حوالے سے بھی بل تیار کیے جا رہے ہیں اور صوبے کے ممتاز ماہرین قانون سے اس بارے میں رائے لی گئی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ سال صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے 76 واقعات ریکارڈ ہوئے جن میں غیرت کے نام پر قتل کے 24، خواتین کو قتل کرنے کے 29، اغوا کرنے کے 3، خودکشی کے 9، خواتین کو تشدد کے ذریعے زخمی کرنے کے 16، عصمت دری اور تیزاب پھینکنے کے دو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
عورت فاﺅنڈیشن بلوچستان کے سربراہ اشفاق مینگل نے خواتین پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لیے صوبائی اسمبلی میں کی جانے والی قانون سازی کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے قوانین پہلے بھی موجود تھے لیکن موثر طریقے سے اُن پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث گزشتہ چند سالوں کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں خواتین کا تناسب لگ بھگ 52 فیصد ہے، اتنی بڑی آبادی کے باوجود بلوچستان کی صوبائی کابینہ میں خواتین کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔
تاہم حال ہی میں صوبائی اسمبلی نے پہلی بار ایک خاتون کو اسپیکر منتخب کیا، جسے عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے۔