رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہٴ بلوچستان کا دو تہائی حصہ ایک بار پھر شدید خشک سالی کی گرفت میں آگیا ہے اور صوبے کے شمالی و مغربی اضلاع خشک سالی سے کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔
ان اضلاع میں سیب، آڑو، خوبانی اور انگور کے باغات کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے، جبکہ کوئٹہ کے نواح میں ہنہ جھیل بالکل خشک اور سپین تنگی و زنگی ناوڑ ڈیموں میں پانی کی سطح کافی کم ہو چکی ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ خشک سالی کے مسئلے اور پانی کی گرتی ہوئی سطح کو کنٹرول کرنے کےلئے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ دیگر اقدامات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں۔
پرونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد طارق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تک صوبے میں خشک سالی سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ، صوبے کے بعض اضلاع میں صورتحال کافی خراب ہے۔ اُن کے بقول، ہمارے تین ڈویژن ہیں جس میں کوئٹہ ڈویژن، جس کے چار پانچ اضلاع ہیں اسی طرح خضدار اور تربت، ٹوٹل جو ہمارے اس وقت 20 اضلاع متاثر ہوئے ہیں، ہماری پوری تیاری ہے کوئی بھی اگر کہیں یہ آفت آئی ہے تو ہم وہاں پہنچیں گے۔
بین الااقوامی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد، اب بلوچستان میں سالانہ 176 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ کوئٹہ سمیت شمالی اضلاع میں صرف 50 ملی میٹر بارش سالانہ ہوتی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہٴ ’ڈیزاسٹر منیمجمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ سنٹر‘ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سید عین الدین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے یہ صوبہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ صوبے میں گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران بارشوں میں کافی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
انہوں نے تجویز کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو اس مسئلے سے نمٹے کے لئے جنگی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ زرعی مقاصد کےلئے پانی استعمال کرنے کے لئے پالیسی بنانی چاہیے۔
قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کے 32 اضلاع میں سے صرف تین اضلاع کے لوگ زرعی مقاصد کےلئے دریائے سندھ کے پانی کو استعمال کرتے ہیں، دیگر 30 اضلاع کے لوگوں کا گزر بسر بارانی یا زیر زمین پانی پر ہے۔