خبردار کسی نے ’سلیکٹڈ‘ کہا تو!

فائل

کیا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان واقعی سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر قومی اسمبلی نے ان کے نام کے ساتھ سلیکٹڈ لفظ استعمال کرنے پر پابندی کیوں لگائی ہے؟

ایوان کے اندر ’سلیکٹڈ‘ لفظ پر پابندی لگنے کے باوجود ارکان اسمبلی اِسے مختلف حیلے بہانوں سے استعمال کرتے ہیں۔ جمعے کے روز میزانیہ برائے سال دو ہزار انیس ۔ بیس کی منظوری کے دوران لفظ ’سلیکٹڈ‘ کی گونج سنائی دیتی رہی۔

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان شاید دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں ’سلیکٹڈ‘ لفظ پر پابندی ہے۔

سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے، شاہد خاقان نے کہا کہ ’’آج ملک کا بچہ بچہ ’سلیکٹڈ‘ کہہ رہا ہے۔ لیکن اُن پر پابندی ہے کہ وہ یہ لفظ ایوان میں نہیں بول سکتے‘‘۔ جمعیت علماء اسلام (ف گروپ) کی رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ یہ رولنگ دی گئی ہے کہ ’سلیکٹڈ‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ یہ غیر قانونی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر وہ یہ لفظ استعمال نہیں کریں تو ’’اِس کی جگہ کون سا لفظ سلیکٹ کریں‘‘۔

مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی رانا تنویر حسین نے حکومت کو پیشکش کی کہ اگر وہ آئندہ سال ریونیو کا ہدف پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے تک لے گئی تو وہ وزیر اعظم کے ساتھ ’سلیکٹڈ‘ کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ دینگے۔

عمران خان کے ساتھ ’سلیکٹڈ پی ایم‘ کا لفظ سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں استعمال کیا تھا۔ گزشتہ سال حلف لینے کے بعد ایوان کے اجلاس میں عمران خان سمیت سبھی ارکان اسمبلی موجود تھے تو ان کی موجودگی میں بلاول بھٹو نے انگریزی میں اپنی تقریر کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ ’دا پرائم منسٹر سلیکٹ‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جس پر عمران خان مسکرائے اور اُن سمیت حزب اقتدار کے تمام اراکین اور اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے تالیاں بھی بجائی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تقریباً دس ماہ بعد اس لفظ پر پابندی کیوں لگائی؟ کیا اُنہیں اِس کا مطلب اب سمجھ آیا ہے یا اُنہیں یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان واقعی ’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘ ہیں۔ کیا ’سلیکٹڈ‘ لفظ غیر آئینی ہے؟

یہ جاننے کے لیے آیا لفظ سلیکٹڈ مناسب نہیں ہے، ہم نے گورنمنٹ کالج یونیوسٹی لاہور سے رابطہ کیا۔ جی سی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی کہتے ہیں کہ کوئی بھی لفظ غیر پارلیمانی نہیں ہوتا۔ لیکن اُس کا استعمال اُسے پسندیدہ یا نا پسندیدہ بنا دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’آجکل جو حالات بنے ہوئے ہیں، اُس وجہ سے اِس لفظ میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اُن حالات کی وجہ سے جن حالات میں اِسے بولا اور استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر خالد محمود سنجرانی نے کہا کہ یہ لسانیات یا زبان کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی حالات کا معاملہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کوئی لفظ کس نیت سے بولا جا رہا ہے۔ وہ احساس دیکھا جاتا ہے۔ اگر اُس کے پیچھے جذبہ اچھا ہے تو لفظ اچھا لگتا ہے۔ اگر اُس کے استعمال کی نیت بری ہے تو لفظ بھی برا لگتا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ قوم کو لفظوں میں نہ الجھایا جائے۔ ویسے بھی مرد لوگ لفظوں میں نہیں الجھتے۔ گورنمنٹ کالج یونیوسٹی کے استاد نے اپنی گفتگو اقبال کی نظم کا مصرعہ سنا کر ختم کی۔

اَلفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا،
غواص کو مطلب ہے صدَف سے کہ کُہر سے!

پاکستان تحریک انصاف نے سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کُل 342 میں سے 272 جنرل نشستوں میں سے 123 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ "وہ کسی آمر کے کندھوں پر بیٹھ کر یہاں تک نہیں پہنچے۔ بلکہ یہ اُن کی بائیس سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے"۔

جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے منسلک پروفیسر شبیر احمد خان بتاتے ہیں کہ پولیٹیکل سائنس میں لیڈران کو مختلف القابات سے نواز جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں وزیر اعظم کے چناو کا طریقہ کار درج ہے؛ ’’لیکن، سلیکٹڈ کا لفظ بار بار استعمال ہونے سے وہ ایک ورب بن گیا ہے‘‘۔ پروفیسر شبیر خان کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم بلکہ پوری پاکستان تحریک انصاف کے پیچھے کچھ قوتیں ہیں اور یہ سب کچھ سیاسی طریقہ کار کے مطابق نہیں ہوا۔ بلکہ، کچھ قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ بظاہر وزیر اعظم رکن قومی اسمبلی بھی بنے منتخب ہوئے اُس کے بعد اسمبلی نے ہی اُن کو چنا ہے۔ لہذا، جب ایک منتخب شخص کے لیے سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو وہ گالی بن جائے گا۔

انھوں نے کہا، ’’ویسے سلیکٹڈ لفظ کوئی برا نہیں ہے۔ انگریزی میں لوگوں کا انتخاب الیکشن کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور کوئی کمیٹی بھی چُن لیتی ہے ان کو۔ ماضی میں وزرائے اعظم پر الزامات لگتے رہے۔ اُنہیں چور، ڈاکو، قاتل اور لٹیرے کہا جاتا رہا۔ لیکن سلیکٹڈ لفظ کوئی نئی اختراع نہیں ہے"۔

سینئر صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کسی بھی لفظ کو اپنی چِڑ بنانا یا اُسکے استعمال پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ نعرے تو ہر دفعہ لگتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے بتایا کہ جب ایوب خان کے خلاف مہم چلی تو اُنہیں "ایوب کتا" کہا جاتا تھا۔ اِس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیں جو شائستگی اور روایات کے خلاف ہیں۔ لیکن جو عوامی رویے ہوتے ہیں جو اِس طرح کے جذباتی رویے ہوتے ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی آپ دیکھیں تو لوگ جذبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگ پُتلوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔

سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے لیے "گو بابا گو" کے نعرے لگتے تھے۔ محترمہ کے بارے میں شیخ رشید صاحب نے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ اسی طرح ماضی میں نواز شریف کی حکومت کے بارے کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ وہ الفاظ یا وہ نعرے دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے جو اِنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف لگائے گئے تھے۔

بقول اب کے، "میری نظر میں اِس کا حل کارکردگی ہے۔ اِس کا حل بہتر رویہ ہے۔ میرے خیال میں اِس کا حل بہتر معاشی پالیسیاں ہیں۔ لفظ پر پابندی لگانے سے یا اُس کو ایوان میں کہنے سے کیا کبھی کوئی الفاظ ڈکسشنری سے ختم ہوئے ہیں یا وہ لفظ لوگ کہنے سے باز آئے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا"۔

سہیل وڑائچ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک سیاسی روایت ہے کہ سیاسی مخالفین کو مختلف ناموں سے پکارا جائے اور ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ "بھٹو صاحب لوگوں کے نام رکھتے تھے۔ وہ اصغر خان کو "آلو خان" کہتے تھے۔ اور لوگوں کے بھی اُنہوں نے نام رکھے ہوئے تھے۔ خان عبدالقیوم خان کو وہ "ڈبل بیرل خان" کہتے تھے۔ اِسی طرح وہ اپنی تقریریوں میں سیاسی مخالفین کے ناموں کے آخر میں آنے والی چھوٹی "ی" کو لمبا کرتے تھے اور اُسے کھینچ کر پکارتے تھے۔"

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر لکھتے ہیں کہ اسد قیصر کو اسد قیصر اور قاسم سوری کو قاسم سوری نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ اسی طرح سلیکٹڈ کو سلیکٹڈ نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ ایسے تو شوکت عزیز صاحب بھی دو حلقوں سے منتخب کرائے گئے تھے۔

"وزیر اعظم کو چور کہا گیا۔ لیکن پابندی نہیں لگی۔ ڈاکو کہا گیا۔ لیکن پابندی نہیں لگی۔ غدار کہا گیا۔ لیکن پابندی نہیں لگی۔ مطلب یہ کہ پی ٹی آئی والے بھی مانتے ہیں کہ سلیکٹڈ ہونا چور، ڈاکو اور غدار ہونے سے بدتر ہے"۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے گزشتہ اتوار کو رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ قائد ایوان کے ساتھ لفظ "سلیکٹڈ" استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیڈر آف دی ہاوس (وزیر اعظم) کے نام کے ساتھ "سلیکٹ" استعمال کرنا پورے ایوان کی توہین ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے یہ رولنگ توانائی کے وزیر عمر ایوب خان کے پوائنٹ آف آرڈر (نکتہ اعتراض) پر جاری کی۔

بلاول بھٹو کی جانب سے ایوان میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لیے لفظ "سلیکٹڈ پرائم منسٹر" بولے جانے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندوں کی جانب سے مختلف پریس کانفرنس اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بھی کثرت سے بولے جانے لگا۔ حتٰی کہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر بھی ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

نوبل انعام یافتہ مشہور امریکی ناول نگار اور اُستاد ٹونی موریسن نے اپنے نوبل لیکچر میں کہا تھا کہ جب سرکاری جگہوں اور دفاتر میں زبان اپنے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ زوال پزیری کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب انسان زبان کو نا پسندیدگی اور بے پراوہی کے لیے استمال کرتا ہے تو اُس کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔