عبدالقادر ملا پر الزام تھا کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستان سے آزاد ی کے حصول کی جدوجہد کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے مقامی باشندوں کو قتل کیا تھا۔
واشنگٹن —
بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء کی تحریکِ آزادی کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی ہے۔
بنگلہ دیش حکومت کے ایک عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ عبدالقادر ملا کو ڈھاکہ کی 'سینٹرل جیل' میں مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے پھانسی دی گئی۔
اس سے قبل جمعرات کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے عبدالقادر ملا کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما کو 1971ء کی تحریکِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ثابت ہونے پر منگل اور بدھ کی درمیانی شب پھانسی دی جانا تھی۔ لیکن پھانسی پر عمل درآمد سے کچھ دیر قبل ان کے وکلا نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے ایک سینئر جج سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا تھا۔
تاہم اپیل کی ایک روزہ سماعت کے بعد جمعرات کو بنگلہ دیش کے چیف جسٹس مجمل حسین کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ "درخواست گزار کی پھانسی کی سزا سے متعلق کوئی ابہام نہیں رہا اور ان کی سزا پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے"۔
عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے 'انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل' نے عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے پھانسی سے بدل دیا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما پر الزام تھا کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستان سے آزاد ی کے حصول کی جدوجہد کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے مقامی باشندوں کا قتلِ عام کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے 2010ء میں قائم کیا جانے والا یہ ٹربیونل ان افراد کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا بنگلہ دیش کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت 'جماعتِ اسلامی' کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور جماعت کے ان پانچ رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں مذکورہ ٹربیونل اب تک سزائیں سناچکا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں مذکورہ ٹربیونل اور اس کی کاروائی کو غیر شفاف اور غیر منصفانہ قرار دیتے آئے ہیں جب کہ بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعتوں کا موقف ہے کہ وزیرِاعظم حسینہ واجد کی حکومت اس کمیشن کے ذریعے اپنے مخالفین کےخلاف انتقامی کاروائیاں کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ جماعتِ اسلامی، بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد کا حصہ ہے جس کی سربراہی سابق وزیرِاعظم بیگم خالدہ ضیا کر رہی ہیں۔
اس سے قبل نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے بھی خبردار کیا تھا کہ عبدالقادر ملا کی سزائے موت کا از سر نو جائزہ لیے بغیر پھانسی دینے سے بنگلہ دیش بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
عبدالقادر ملا کمیشن کی جانب سے سزا پانے والے وہ پہلے فرد ہیں جن کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ ملا کوپھانسی دیے جانے کے بعد جماعتِ اسلامی کے کارکن اور حامی سخت احتجاج کریں گے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے عبدالقادر ملا کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کیے جانے پر جماعت اسلامی نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اس کے رہنما کی پھانسی پر عملدرآمد کے "سنگین نتائج" برآمد ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حزبِ اختلاف کے کارکنوں نے بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے بھی کیے تھے جس کے دوران میں کئی مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
منگل کو عبدالقادر ملا کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا پہلا اعلان ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں پھوٹنے والے ہنگاموں کے نتیجے میں اب تک سات افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر عمل درآمد ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بنگلہ دیش میں آئندہ برس پانچ جنوری کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
بنگلہ دیش کی ایک عدالت پہلے ہی 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں جماعتِ اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ لیکن اس پابندی کے باوجود جماعتِ اسلامی، بیگم خالدہ ضیا کی جماعت 'بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی' کی سربراہی میں چلنے والی حکومت مخالف تحریک میں سرگرمی سے شریک ہے۔
بنگلہ دیش حکومت کے ایک عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ عبدالقادر ملا کو ڈھاکہ کی 'سینٹرل جیل' میں مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے پھانسی دی گئی۔
اس سے قبل جمعرات کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے عبدالقادر ملا کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما کو 1971ء کی تحریکِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ثابت ہونے پر منگل اور بدھ کی درمیانی شب پھانسی دی جانا تھی۔ لیکن پھانسی پر عمل درآمد سے کچھ دیر قبل ان کے وکلا نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے ایک سینئر جج سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا تھا۔
تاہم اپیل کی ایک روزہ سماعت کے بعد جمعرات کو بنگلہ دیش کے چیف جسٹس مجمل حسین کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ "درخواست گزار کی پھانسی کی سزا سے متعلق کوئی ابہام نہیں رہا اور ان کی سزا پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے"۔
عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے 'انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل' نے عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے پھانسی سے بدل دیا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما پر الزام تھا کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستان سے آزاد ی کے حصول کی جدوجہد کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے مقامی باشندوں کا قتلِ عام کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے 2010ء میں قائم کیا جانے والا یہ ٹربیونل ان افراد کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا بنگلہ دیش کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت 'جماعتِ اسلامی' کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور جماعت کے ان پانچ رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں مذکورہ ٹربیونل اب تک سزائیں سناچکا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں مذکورہ ٹربیونل اور اس کی کاروائی کو غیر شفاف اور غیر منصفانہ قرار دیتے آئے ہیں جب کہ بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعتوں کا موقف ہے کہ وزیرِاعظم حسینہ واجد کی حکومت اس کمیشن کے ذریعے اپنے مخالفین کےخلاف انتقامی کاروائیاں کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ جماعتِ اسلامی، بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد کا حصہ ہے جس کی سربراہی سابق وزیرِاعظم بیگم خالدہ ضیا کر رہی ہیں۔
اس سے قبل نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے بھی خبردار کیا تھا کہ عبدالقادر ملا کی سزائے موت کا از سر نو جائزہ لیے بغیر پھانسی دینے سے بنگلہ دیش بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
عبدالقادر ملا کمیشن کی جانب سے سزا پانے والے وہ پہلے فرد ہیں جن کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ ملا کوپھانسی دیے جانے کے بعد جماعتِ اسلامی کے کارکن اور حامی سخت احتجاج کریں گے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے عبدالقادر ملا کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کیے جانے پر جماعت اسلامی نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اس کے رہنما کی پھانسی پر عملدرآمد کے "سنگین نتائج" برآمد ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حزبِ اختلاف کے کارکنوں نے بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے بھی کیے تھے جس کے دوران میں کئی مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
منگل کو عبدالقادر ملا کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا پہلا اعلان ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں پھوٹنے والے ہنگاموں کے نتیجے میں اب تک سات افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر عمل درآمد ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بنگلہ دیش میں آئندہ برس پانچ جنوری کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
بنگلہ دیش کی ایک عدالت پہلے ہی 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں جماعتِ اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ لیکن اس پابندی کے باوجود جماعتِ اسلامی، بیگم خالدہ ضیا کی جماعت 'بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی' کی سربراہی میں چلنے والی حکومت مخالف تحریک میں سرگرمی سے شریک ہے۔