بنگلہ دیش میں عام انتخابات میں شیخ حسینہ واجد نے مسلسل چوتھی بار کامیابی حاصل کر لی ہے جب کہ ان کی جماعت عوامی لیگ کو متنازع الیکشن میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہو گئی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بائیکاٹ کے سبب الیکشن میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔
بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاول نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ 40 فی صد رہا۔
ملک میں قبل ازیں عام انتخابات 2018 میں ہوئے تھے جن میں ٹرن آؤٹ 80 فی صد سے زائد تھا۔
رواں برس ہونے والے عام انتخابات سے قبل بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں نے مسلسل احتجاج کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور ملک میں نگراں حکومت کے تحت عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔
شیخ حسینہ نے ان مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی حکومت نے اپوزیشن کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا جس کے حزبِ اختلاف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
یہ 17 کروڑ آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد 12ویں عام انتخابات تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ قبل ازیں 2014 میں ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر بھی اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھی ٹرن آؤٹ لگ بھگ 40 فی صد تھا جب کہ شیخ حسینہ نے ان انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی اور ملک میں حکومت قائم کی تھی۔
بنگلہ دیش کی پارلیمان کی 300 میں سے 299 نشستوں پر اتوار کو الیکشن ہوئے۔
ایک نشست پر ایک آزاد امیدوار کے انتقال کے سبب انتخاب کو ملتوی کیا گیا۔ ان انتخابات میں لگ بھگ 12 کروڑ ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔
SEE ALSO: ڈاکٹر یونس کو مجرم قرار دینے کے عدالتی فیصلے پر سخت رد عملقطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کے مطابق شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے انتخابات میں 222 نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ اس کے بعد سب سے زیادہ 63 نشستوں پر آزاد امیدواروں کو برتری حاصل ہے۔ جب کہ اس وقت پارلیمان میں جاتیا پارٹی اپوزیشن کی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس کو صرف 11 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق شیخ حسینہ نے دارالحکومت ڈھاکہ سے 150 کلو میٹر دور گوپال گنج کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا۔
شیخ حسینہ کو لگ بھگ ڈھائی لاکھ ووٹ ملے جب کہ ان کے مخالف امیدوار بنگلہ دیش سپریم پارٹی کے محمد نظام الدین تھے جو صرف 869 ووٹ حاصل کر سکے۔
واضح رہے کہ 2014 میں جب بی این پی سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا تو اس وقت عوامی لیگ کے 153 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ گئے تھے جس کے سبب اس الیکشن کا انتہائی متنازع قرار دیا گیا تھا۔
اس بار عوامی لیگ نے حکمتِ عملی تبدیل کی اور اپنی پارٹی کے رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت انتخاب میں حصہ لیں۔
'رائٹرز' کے مطابق انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے آزاد امیدواروں میں زیادہ تر عوامی لیگ کے ہی رہنما ہیں۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں الیکشن: اپوزیشن کے بائیکاٹ کے سبب انتہائی کم ٹرن آؤٹعوامی لیگ کی جانب سے بنگلہ دیش کے مشہور اداکار فردوس احمد، کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شکیب الحسن اور مشرف المرتضیٰ بھی کامیاب ہو کر پارلیمان میں پہنچے ہیں۔
عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل عبید القادر کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ نے کامیابی پر کسی بھی قسم کا جشن منانے سے منع کیا ہے۔
دوسری جانب بائیکاٹ کرنے والی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش عوامی پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت نے دکھاوے کے لیے ڈمی آزاد امیدوار میدان میں اتارے تھے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ جائز انتخابات ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحب زادی شیخ حسینہ 2009 سے مسلسل اقتدار میں ہیں اور وزارتِ عظمی کے منصب پر براجمان ہیں۔ وہ 1996 سے 2001 کے درمیان پہلی بار وزیرِ اعظم بنی تھیں۔
حالیہ عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کے متعدد واقعات ہوئے تھے۔ البتہ الیکشن کے دن کوئی بڑا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
بنگلہ دیش کی حزبِ اختلاف کی بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں نے ملک بھر میں دو دن کی ہڑتال کی کال دی تھی اور عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ووٹ نہ دیں۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش کے عام انتخابات؛ ’اپوزیشن ایسا الیکشن کیوں لڑے جس کا نتیجہ پہلے ہی طے شدہ ہے‘خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن میں 44 جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 28 جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ ان 28 جماعتوں میں سے بھی صرف دو کے حصے میں پارلیمانی نشستیں آئی ہیں۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)