|
بنگلہ دیش میں 15 اگست کو، جو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمآن کی پلاکت پر یوم سوگ کے طور پر منایا جاتا تھا، لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور پائپوں سے مسلح سینکڑوں طلبا مظاہرین اور سیاسی کارکنوں نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حامیوں پر حملہ کیا اور انہیں مقتول آزادی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ تک پہنچنے سے روک دیا۔
دھان منڈی کے علاقے میں واقع اس گھرکو رحمان اور انکے خاندان کے بیشتر افراد سمیت قتل کے بعد ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں ، 15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت سے متعلق اشیاء کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔
اس گھر کو، جسے اب بنگ بندھو میموریل میوزیم کہا جاتا ہے، 5 اگست کو حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے چند گھنٹے بعد مظاہرین نے نذر آتش کر دیا تھا۔ حسینہ کے دور اقتدار کا خاتمہ اس شورش کے بعد ہوا جس کے دوران تین سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔
رحمان کو پیار سے بنگ بندھو یا بنگال کا دوست کہا جاتا ہے۔
جمعرات کو شیخ مجیب الرحمآن کی برسی ہے، اور حسینہ نے، جو اب جلا وطنی اختیار کرکے بھارت میں مقیم ہیں، اپنے حامیوں پر زور دیا تھا کہ وہ رحمن کا احترام کرتے ہوئے اس دن کی یاد منائیں۔
اس سے پہلے، 15 اگست کو عام تعطیل ہوا کرتی تھی اور اس دن کو حسینہ کی انتظامیہ کی طرف سے قومی یوم سوگ کے طور پر منایا جاتا تھا۔
لیکن نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی زیر قیادت عبوری حکومت نے حسینہ کی معزولی کے بعد اس سوگ کو منسوخ کر دیا ہے۔ حسینہ اور ان کی بہن 1975 کی بغاوت میں زندہ بچ گئی تھیں کیوں کہ وہ دونوں اس وقت جرمنی کے دورےپر تھیں ۔
عینی شاہدین نے کہا ہے کہ جمعرات کو مظاہرین نے حسینہ کے حامیوں پر حملہ کیا جنہوں نے اس مکان پر جانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بہت سے لوگوں سے بدتمیزی کی اور وہاں آنے والوں کے فون اور شناختی کارڈ چیک کیے جبکہ جائے وقوعہ کے واقعات کی فلمبندی کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں دیں۔
جمعرات کو مظاہرین کے ایک اور گروپ نے علاقے کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے " نعرہ تکبیر، اللہ اکبر" کے نعرے لگائے جہاں میوزیم کے مقامکو خاردار تاروں کے جنگلوں سے بلاک کر دیا گیا تھا۔
بدھ کو مظاہرین نے جو پہلے رحمن کے گھر پہنچے تھے ایک مشہور اداکارہ پر حملہ کیا، جب وہ برسی کے سلسلے میں حسینہ کے درجنوں حامیوں کے ساتھ موم بتیاں جلانے کے لیے وہاں پہنچیں تھیں ۔
انہوں نے رات بھر لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے اور گانے بجاتے ہوئے اوررقص کرتے ہوئے میوزیم کے باہر ایک پارٹی منعقد کی ۔ اس میوزیم کو اس ماہ کے شروع میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران نذر آتش کر دیا گیا تھا۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں اب ہجوم کی حکمرانی ہے؛ شیخ حسینہ کے بیٹے کا دعویٰپارٹی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ حسینہ کے حامیوں کے اجتماع کو روکنے کے لیے نکلے ہیں کیونکہ وہ برسی کی آڑ میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ڈھاکہ کے شاہ باغ علاقے میں ایک ریلی کی قیادت کرنے والے طلباء احتجاج کے ایک اہم منتظم، سرجس عالم نے جمعرات کو کہا کہ وہ حسینہ کے خلاف مقدمے کا مطالبہ کرتے رہیں گے ۔
جب ان سے میوزیم کے باہر طلباء اور دوسرے سر گرم کارکنوں کی جانب سے صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں پوچھ گچھ کریں گے لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
جمعرات کے روز بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں افراتفری کا ماحول رہا جب کہ پولیس کہیں دکھائی نہیں دی ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے۔