|
اسلام آباد _ پاکستان نے بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد بنگلہ دیش میں پرامن انداز اور تیزی کے ساتھ حالات معمول پر آنے کے لیے پرامید ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کاروں نے بنگلہ دیش میں بدلتی صورتِ حال کو خوش آئند قرار دیا ہے امید ظاہر کی ہے کہ نئی حکومت بننے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آسکیں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی دنیا کے دیگر تمام ممالک کے لیے ایک پیغام ہے کہ عوام کی طاقت سے کوئی بھی حکومت گرائی جا سکتی ہے۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف تین ہفتوں تک جاری رہنے والی طلبہ تحریک کے دوران 300 سے زائد افراد قتل ہوئے تھے۔ ایسے میں فوج نے مداخلت کی اور شیخ حسینہ پیر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہو گئیں۔ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ تحلیل کی جاچکی ہے اور عبوری حکومت قائم کی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی بدلتی صورتِ حال پر پاکستانی میڈیا پر بھرپور کوریج دیکھنے میں آئی۔ تمام اخبارات کی شہ سرخی شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام نیوز چینلز نے اس بارے میں براہِ راست نشریات کیں اور شام کو ٹاک شوز میں بھی یہی ایشو زیرِ بحث تھا۔
سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں بہت زیادہ تبصرے دیکھنے میں آرہے ہیں اور ان میں کئی پوسٹس میں شیخ حسینہ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں بھارت نواز اور ان کی حکومت کے خاتمے کو پاکستان کی جیت کے برابر قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض صارفین بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کی کامیابی کے بعد پاکستان میں ایسی کسی تحریک کے نہ چلنے کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔
'شیخ حسینہ کی حد سے زیادہ بھارت نوازی نے معاملات خراب کیے'
بنگلہ دیش میں مسلسل 15 برس تک اقتدار میں رہنے والی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے پر پاکستان کے سابق سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں نے محتاط ردِ عمل دیا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کے طلبہ کا احتجاج دراصل عوام کے جذبات تھے جو ایک لاوا کی صورت میں پھٹ کر نکلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ ایک ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کر رہی تھیں اور انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے ساتھ پاکستان کے ساتھ تعلقات تقریباً ختم کر دیے تھے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ بھارت کا ضرورت سے زیادہ بنگلہ دیش میں دباؤ اور عمل دخل بنگلہ دیشی عوام کو پسند نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شیخ مجیب کا ایک کلٹ جو بنایا گیا تھا عوام نے اسے بھی مسترد کردیا ہے اور اس کا ثبوت ان کے مجسمے توڑنے سے ظاہر ہوتا ہے۔
سابق سفارت کار نے کہا کہ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر کے گھر پر حملہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بنگالی عوام شیخ حسینہ کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں تھے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کے خیال میں بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کر لیا گیا تھا لیکن نوجوانوں کو انگیج نہ کیا جانا اور مواقع کی کمی اس صورتِ حال کا باعث بنی اور شیخ حسینہ کی مضبوط حکومت کو گھر جانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں 60 سے 70 فی صد نوجوان ہیں۔ ان ممالک میں سیاسی جماعتوں کا پیغام نئی نسل کے جوانوں کی سوچ کے ساتھ نہیں ملتا۔ سیاسی جماعتیں عام طور پر مذہب اور قومیت کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اب نوجوان ان چیزوں کے علاوہ اپنے مستقبل اور ملازمتوں کے مواقع کو دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول، بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔
پاکستان کیا چاہتا ہے؟
سابق سفارت کار عبدالباسط کے مطابق پاکستان یہ نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات متاثر ہوں لیکن یہ مثبت تعلقات کسی تیسرے ملک کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش کا جھکاؤ بھارت کی جانب تھا اور پاکستان کے بار بار مدعو کرنے کے باوجود وہ پاکستان نہیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان موجود پوٹینشل کو جانچ کر مثبت انداز میں آگے بڑھے گی۔
بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو ملک کی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔
طلبہ تحریک کے رہنماؤں، ملک کی تینوں افواج کے سربراہان اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ ساتھ کچھ کاروباری رہنماؤں نے منگل کو صدر شہاب الدین کے ساتھ پانچ گھنٹے سے زیادہ دیر تک ملاقات کی تھی جس میں عبوری سیٹ اپ پر مشاورت کی گئی۔
سابق سفارت کار اعزاز چوہدری کے خیال میں پاکستان چاہتا ہے کہ اب بنگلہ دیش میں امن قائم ہو اور جو بھی حکومت بنے وہ عوام کی خواہشات کی عکاس ہو۔ قطع نظر اس بات کہ کون سی شخصیت یا جماعت کیا خیالات رکھتی ہے۔ ہمیں اس بات کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیشی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے بہترین افراد کو چنیں۔
ان کے بقول، پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھا جائے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے گی اور شیخ حسینہ کی طرح ہر وقت ماضی کی تلخیوں کو بڑھاوا دیتے ہوئے پاکستان سے تعلقات کمزور نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب کی قیادت میں ایک تحریک کے بعد 1971 میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بنگلہ دیش میں اتنی بڑی تبدیلی اتنے کم وقت میں کیسے آگئی؟ کس طرح تین ہفتوں کے اندر عوامی طاقت نے ایک مضبوط حکومت کو گھر جانے پر مجبور کردیا؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں فوج کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے۔ کبھی دونوں ملک ایک تھے لیکن سیاست دانوں اور فوج کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا۔ جو لوگ اس وقت غلط فیصلے کررہے ہیں انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں پاکستان کہہ سکتا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور بنگلہ دیش کے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کریں۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے دور میں جس طرح جماعت اسلامی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور پھانسیاں دی گئیں اس پر پاکستان شیخ حسینہ پر تنقید کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بنگلہ دیش کی سیاست پر نہیں البتہ 1971 کے معاملات پر جب جب پاکستان کا نام لے کر وہاں نفرت پھیلائی جاتی تھی تو پاکستان اس پر بات کرتا تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان نے اس بارے میں بھی بات کرنا چھوڑ دی تھی۔
فورم