|
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خفیہ اداروں کی طرف سے عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت پر خط لکھنے کے بعد بار ایسوسی ایشنز نے ججوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ججوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
ججوں کی جانب سے خط ارسال کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی انکوائری کے لیے اعلیٰ اختیارات کا حامل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کا خط اعتراف ہے کہ وہ حلف کے مطابق بے خوف و خطر کام نہیں کر پا رہے۔ اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج انصاف کی فراہمی جیسا حساس کام اس وقت نہیں کر سکتے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ اس لیے تمام حساس مقدمات دیگر صوبائی ہائی کورٹس کو منتقل کر دیے جائیں۔ یہ درخواست میان داؤد ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
اس معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا بیان بھی سامنے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں کے نہیں، ججوں کے محاسبے کا فورم ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق پانچ سال تک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں ایک لفظ تک نہ بولنے والوں کے ضمیر اچانک کیوں جاگ گئے ہیں۔
SEE ALSO: اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کا انٹیلی جینس اداروں کی مبینہ مداخلت کے خلاف جوڈیشل کونسل کو خط’بار ایسوسی ایشنز ججوں کے ساتھ ہیں‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیے گئے خط پر مختلف بار ایسوسی ایشنز نے اپنا ردِ عمل ظاہر کر دیا ہے۔
اس معاملے پر پاکستان بار کونسل نے پانچ اپریل کو اجلاس طلب کیا ہے جس میں کونسل کی حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایڈیشنل سیکریٹری شہباز علی کھوسہ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس بارے میں ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا ہے۔ بدھ کو اجلاس میں اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کسی بھی ادارے کی دوسرے ادارے میں مداخلت کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔
بیان کے مطابق ججوں نے دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔
ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں جب کہ ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس معاملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی مداخلت سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور اس کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔
SEE ALSO: شہر یار آفریدی گرفتاری معاملے میں ڈی سی اسلام آباد کو توہینِ عدالت کی سزا؛ کب کیا ہوا؟بلوچستان بار کونسل نے اس بارے میں چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا
کونسل کا ،بیان میں کہنا تھا کہ اسلام آباد کے ججوں کا خط تشویش ناک معاملہ ہے جسکا تعلق آزاد عدلیہ پر قدغن سے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے کیسز دیگر عدالتوں کو بھجوانے کی درخواست
سپریم کورٹ میں بدھ کو دائر ایک درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے ہائی پاور کمیشن تشکیل دیا جائے۔
یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
ججوں کے خط پر تحقیقات کے لیے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر مذکورہ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ انکوائری کمیشن کی تحقیقات میں جو بھی مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
درخواست کے متن کے مطابق ہائی کورٹ کے ججوں کا خط اعتراف ہے کہ وہ حلف کے مطابق بے خوف و خطر کام نہیں کر پا رہے۔ اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج انصاف کی فراہمی جیسا حساس کام اس وقت نہیں کر سکتے۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ اس لیے تمام حساس مقدمات دیگر صوبائی ہائی کورٹس میں منتقل کیے جائیں۔
درخواست گزار کے مطابق ججوں کے خط میں بظاہر تحریکِ انصاف کے بیانیے والا ہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ ججوں کے خط کی بنیاد پر چیف جسٹس ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چل رہی ہے۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کے مطابق قرارمسلم لیگ (ن) کی ججوں کے خط پر تنقید
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر حکومت کی طرف سے اب تک کوئی واضح ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں نہیں بلکہ ججوں کے احتساب کا فورم ہے۔
ان کے بقول ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پانچ سال تک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں ایک لفظ نہ بولنے والوں کے ضمیر اچانک کیوں جاگ گئے ہیں؟
انہوں نے الزام عائد کیا کہ نو مئی 2023 کے ملزمان کے تحفظ کے لیے مخصوص جماعت کی سہولت کاری کی جا رہی ہے۔ ان ججوں کو دھمکیاں دینے یا دباؤ ڈالنے والے کرداروں کو سزا دینے کا اختیار خود ان ججوں کے پاس تھا۔
ان کے بقول ان ججوں کو چاہیے تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی طرح برملا ایسے کرداروں کا نام لیتے اور عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے الزام میں انہیں اپنی عدالتوں میں طلب کرتے۔
عرفان صدیقی نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج نے بظاہر اپنے جونیئر ججوں پر اثر انداز ہو کر یہ خط لکھوایا ہے جس کا محرک کوئی اور ہے۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ سماعت؛ 'پارلیمان اور عدلیہ کی اپنی اپنی آئینی حیثیت ہے'تحریکِ انصاف کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ
خط کے معاملے پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ یہ خط پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ججوں کے خط میں لکھا ہے کہ یہ مداخلت سیاسی کیسوں کے تناظر میں تھی۔ ججوں نے سیاسی کیسز اور ٹیریان کیس کا ذکر کیا ہے۔ ہائی کورٹ کے چھ جج دباؤ سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدلیہ میں مداخلت کی مذمت کرتے ہیں جن ججوں نے خط لکھا ہے ان کا اور ان کے اہلِ خانہ کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
ان کے بقول اس خط پر کارروائی نہ ہوئی تو عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا۔
بیرسٹر گوہرکا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف فیصلے دباؤ میں دیے گئے۔ ان کی کوئی وقعت نہیں۔
SEE ALSO: شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ غیر قانونی قرار؛ سابق جج کو کیوں ہٹایا گیا تھا؟انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں قرارداد لائی جائے گی۔ ماضی کی غلطیوں کا تدارک کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام بے نقاب ہو چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔
ان کا مطالبہ تھا کہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے۔