پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر منڈی بہاؤ الدین میں جج، وکلا اور انتظامیہ کے درمیان مبینہ تنازع کا معاملہ اب بھی قانونی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
چند روز قبل وکلا کی جانب سے ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو توہینِ عدالت پر جیل بھیجنے کا حکم دینے والے جج پر مبینہ تشدد کے واقعے کی مزمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کنزیومر کورٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راؤ عبدالجباز کی مدعیت میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت منڈی بہاؤ الدین بار عہدے داروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
دوسری جانب بتایا جاتا ہے کہ اِس معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل بھی متحرک ہو چکی ہے اور وکلا کو اپنے حلف کی پاسداری کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز چند وکلا کی جانب سے، بقول ان کے، منفی رویہ کی مزمت کرتی ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ یکم دسمبر کو منڈی بہاؤ الدین میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو سزا سنانے والے جج راو عبدالجبار کو وکلا نے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا اور، بقول ان کے، انہیں گھسیٹتے ہوئے کمرۂ عدالت سے باہر لے گئے۔
اطلاعات کے مطابق سرکاری مکان کی الاٹمنٹ کا کیس مذکورہ عدالت میں زیرِ سماعت تھا جس میں انتظامی افسران اور جج کے درمیان تلخ کلامی کے باعث نوبت توہینِ عدالت کے نوٹسز تک پہنچی۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق چند وکلا نے کمرۂ عدالت میں داخل ہو کر کنزیومر کورٹ کے سیشن جج راؤ عبدالجبار پر صدر بار کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ جج کی جانب سے انکار کرنے پر کھینچا تانی کی گئی اور مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایف آئی آر میں مزید کہا کیا ہے کہ مشتعل وکلا کا ایک گروہ جج کو کھینچتے ہوئے کمرۂ عدالت سے باہر لے گیا اور عدالت کو بند کر دیا گیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ''واقعہ ڈپٹی کمشنر طارق علی بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ کی ایما پر رونما ہوا''۔ واقع کے بعد پنجاب حکومت نے ڈپٹی کمشنر منڈی بہاوالدین، ڈی پی او منڈی بہاؤالدین، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب بار کونسل نے منڈی بہاؤ الدین میں صارف عدالت کے جج سے وکلا کی مبینہ بدتمیزی کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے میں ملوث مقامی بار کے سیکریٹری سمیت دیگر وکلا کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔ بار کونسل نے متعلقہ وکلا کو ذاتی حیثیت میں چھ دسمبر کو پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان میں جلوس اور دھرنوں پر پابندی، 'کسی کو سڑکوں پر آنے کا شوق نہیں ہوتا'آخر تنازع ہے کیا؟
پنجاب بار کونسل کے منڈی بہاؤالدین سیٹ سے رکن اور سینئر وکیل قاسم محمود ایڈوکیٹ سمجھتے ہیں کہ واقعہ سے متعلق اصل حقائق کو کوئی بھی فریق بیان کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اِس ناخوشگوار واقعہ کو کسی صورت بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔ یہ واقعہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا بلکہ اچانک ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رکن پنجاب بار کونسل نے کہا کہ عدالت کی جانب سے منڈی بہاؤالدین کے بار صدر کے خلاف بھی جو شوکاز نوٹس جاری ہوا ہے وہ بھی اچانک ہوا ہے، جسے، بقول ان کے، حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ''یہ بدقسمتی ہے کہ وکلا کی ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں''۔ اُن کے مطابق، وکلا کی اکثریت امن پسند ہے، جو عدالتوں سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے۔
قاسم محمود کا کہنا تھا کہ معاشرے میں دیگر کمیونٹیز بشمول ڈاکٹر، صحافی اور دیگر پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے افراد کے خلاف کچھ نہ کچھ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
'انتظامیہ خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کرے تو مسائل پیدا نہ ہوں'
سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی سمجھتے ہیں کہ منڈی بہاؤالدین واقعہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے، جس کی مزمت بہت ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عابد ساقی نے کہا کہ ''جب چیزیں حد سے تجاوز کرتی ہیں تو اُس کے جواب میں بھی چیزیں اپنی حدود پار کر جاتی ہیں''۔ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر منڈی بہاؤالدین کی ضلع انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ قانون کے سامنے خود کو جواب دہ بناتی۔ بقول ان کے، اُنہیں اِس معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔
رکن پنجاب بار کونسل کی رائے میں منڈی بہاؤالدین کی مقامی عدالت نے جب مقامی انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی تو تمام وکلا تنظیمیں عدلیہ کے ساتھ تھیں۔ اُنہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مقامی عدالت کے دائرہ اختیار میں یہ آتا ہے یا نہیں۔
وکلا تحریک نے کیا وکلا کو پرتشدد بنا دیا ہے؟
سینئر وکیل اور سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کی رائے میں پاکستان میں نام نہاد وکلا تحریک جس کے نتیجے میں طاقت کے ایما پر بہت کچھ حاصل کیا گیا، جس کے بعد سے پرتشدد کارروائیوں کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ، بقول ان کے، ہر پر تشدد شخص کو باعزت طریقے سے نپٹا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کونسل کے آئین کے تحت وہ کسی بھی وکیل کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُس کا لائسسنس معطل کرنے، منسوخ کرنے اور جرمانہ کرنے کی مجاز ہے۔
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی سمجھتے ہیں کہ منڈی بہاؤالدین کی مقامی عدالت کے فیصلے کو اعلٰی عدلیہ کو قانون کی عملداری کے طور پر منوانا چاہیے تھا، جو کہ اُنہوں نے نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں، بقول ان کے، پر تشدد کارروائی مزید بڑھ گئی، ''کیونکہ اِس سے یہ پیغام گیا کہ اعلٰی عدلیہ مقامی وکلا تنظیموں کے ساتھ ہے''۔
رکن پنجاب بار کونسل قاسم محمود کہتے ہیں کہ پنجاب بار کسی بھی وکیل کی جانب سے کسی بھی عدالت پر تشدد یا ہراساں کیے جانے کی مزمت کرتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی بھی وکیل کے لیے یہ ایک بہت بڑی سزا تصور کی جاتی ہے جب اُس کا لائسنس معطل کیا جاتا ہے۔