امریکی پابندیاں ایران کی معیشت پر انتہائی خراب اثرات مرتب کر رہی ہیں اور ریکارڈ افراط زر نے ملک میں صارفین کو اپنی خوراک سے گوشت اور دودھ کی خرید میں کمی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
وہ لوگ جو پہلے گراسری اسٹورز سے بڑی مقدار میں اشیائے خورد و نوش خریدتے تھے، اب ایک وقت کا کھانا چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایران کی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں انتہائی گراوٹ کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں اور بچتوں میں کمی ہو رہی ہے۔
مہنگائی کی شرح 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے نتیجے میں عائد پابندیاں بھی معیشت میں بگاڑ کی ایک وجہ ہے۔ دوسری جانب ملک کرونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں سامان کی فراہمی میں رکاوٹوں اور مقامی پیداوار میں مسلسل کمی بھی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: ایران یورینیم کی افزودگی؛ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ نگرانی کا کام کر سکے گا؟عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے 2015 کے ایٹمی معاہدے کے وقت ایک امریکی ڈالر کے 32 ہزار ایرانی ریال ملتے تھے۔ اب یہ شرح تقریباً دو لاکھ سے زیادہ ریال تک پہنچ چکی ہے۔
ایران کی مجموعی قومی پیداوار میں 2017 سے 2020 تک کے عرصے کے دوران لگ بھگ 60 فی صد تک کمی ہوئی ہے۔ چیمبر آف کامرس کے سربراہ غلام حسین شفیع نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں اس کمی کو ایران کی معیشت کے لیے سنگیں خطرہ قرار دیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران میں لوگ اپنے سرمائے کو بے وقعت تصور کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے جو چیز ان کی خوراک کا لازمی جزو ہوا کرتی تھی، اب وہ اسے خریدنے سے اجتناب کرنے لگے ہیں۔
ایک سال پہلے کے مقابلے میں دودھ، دہی اور انڈوں کی قمیتوں میں تقریباً 80 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح گوشت اور سبزیوں کی قمیتیں بھی 70 فی صد تک بڑھ گئی ہیں۔ اور سستی ترین روٹی اور چاولوں کی قمیتوں میں بھی 50 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔
تہران میں رہنے والی تین بچوں کی ماں خبانی نے بتایا کہ اب میں مہینے میں صرف ایک بار گراسری کرتی ہوں۔ ہمیں پیسہ پیسہ بچانا پڑ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے عالمی جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکالنے کے بعد 2018 میں ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں نافذ کر دیں تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی کمزور معیشت کئی دہائیوں سے بدانتظامی کا شکار چلی آ رہی ہے لیکن اقتصادی پابندیوں نے اسے شدید ضرب لگائی ہے، خاص طور پر تیل کی فروخت پر پابندی کے اقدام نے۔
ڈالر کی قلت کے اثرات پر قابو پانے کی غرض سے ایران کی حکومت معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ریال چھاپ رہی ہے، لیکن اس کا منفی اثر مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں بہت سے ایرانی غربت کے گرداب میں پھنس گئے ہیں۔
پچھلے ایک سال میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں تقریباً 40 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ایران میں وہ افراد غربت کی لکیر کے نیچے تصور کیے جاتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 46 ڈالر سے کم ہوتی ہے۔