گزشتہ دو صدیوں میں سنگلاخ پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کی سر زمین افغانستان میں اپنی حامی حکومت کے قیام اور وہاں اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے جہاں عالمی طاقتیں نبرد آزما رہیں وہیں اب علاقائی طاقتیں بھی اس خطے کو اپنے زیرِ اثر رکھنے کے لیے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایسی مضبوط حکومت قائم ہو جس کا دائرہ کار صرف کابل تک محدود نہ ہو بلکہ اس حکومت میں تمام لسانی، سیاسی اور اقلیتی گروہوں کی بھی نمائندگی ہو جو ان کے تجارتی، سیاسی اور نظریاتی مفادات کی نگران بھی ہو۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2600 کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے لیکن مغرب میں ایران کے ساتھ اس کی سرحد 900 کلومیٹر سے زائد ہے۔
گزشتہ دنوں افغانستان میں طالبان کے خلاف برسر پیکار قوتوں کے آخری گڑھ سمجھے جانے والے صوبۂ پنجشیر پر قبضے کی جنگ میں ایران نے کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر وہاں 'بیرونی مداخلت' کی مذمت کی تھی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ افغانستان میں ایسی 'بیرونیِ مداخلت' کے نتائج ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کا اشارہ پاکستان کی جانب تھا اور اس بات کو تقویت اس سے بھی ملتی ہے کہ جب ایرانی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اخبار 'تہران ٹائمز' نے بھی ایک ایسی ہی خبر کا حوالہ دیا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں کہ جب ایران نے اشاروں کنایوں میں پاکستان کو خبردار کیا ہو۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ایران اور پاکستان کے افغانستان کے تناظر میں مفادات پہلے بھی مختلف رہے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ محقق اور ایران-پاکستان امور کے ماہر صفدر حسن کہتے ہیں پاکستان اور ایران کے افغانستان میں مفادات یکجا ہیں یا باہم مختلف اس بارے میں قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔
ان کے بقول ایران کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے کردار پر ڈھکے چھپے الفاظ میں اعتراضات تو سامنے آئے ہیں۔ اس تناظر میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا کردار بھی اہم ہے جن کے بارے میں ایران کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔
صفدر حسن کے مطابق اگرچہ امریکی افواج خطے سے نکل چکی ہیں لیکن اس کے مفادات اس خطے سے وابستہ رہیں گے۔ ایرانی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے پڑوس میں امریکی مفادات پھلیں پھولیں۔
صفدر حسن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارتی اثر و رسوخ کم ہوا ہے جب کہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کی کوششوں کو بھی دھچکا لگا ہے۔
ان کے بقول بھارت اور ایران چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور اسے وسطی ایشیا کے لیے گوادر کے بجائے متبادل روٹ کے طور پر تیزی سے کام کر رہے تھے۔ بھارت سے قربتوں کے باوجود ایران نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا بھرم قائم رکھتے ہوئے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی۔
ایران اور پاکستان میں بداعتمادی
واشنگٹن کے نیولائنز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار کامران بخاری کے خیال میں ایران کو خدشہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر ایران کے لیے افغانستان میں مشکلات بڑھا سکتا ہے جب کہ پاکستان کو بھی یہی خدشہ ہے کہ ایران بھارت کے ساتھ مل کر بلوچستان میں حالات خراب کرا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا قائم ہونے پر بہت چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن سرد مہری ضرور موجود ہے۔
ایک جانب جہاں طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تو دوسری جانب ایران بھی خود کو اس جنگ میں فعال کھلاڑی سمجھتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کامران بخاری نے بتایا کہ ایران کی فوج کے اہم کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی توجہ مشرقِ وسطیٰ پر تھی لیکن امریکہ کے ایک حملے میں ان کی ہلاکت کے بعد قدس فورس کے نئے کمانڈر بریگیڈیئر اسماعیل غنی اس سے قبل افغانستان کے معاملات کو دیکھ رہے تھے اور انہیں اس کا خاصہ تجربہ بھی ہے۔
اس سوال پر کہ ایران اور پاکستان کے درمیان کشمکش میں طالبان خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟ کامران بخاری کہتے ہیں یقیناً طالبان اس حوالے سے اپنے مفادات کو عزیز رکھیں گے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان ایران سے بھی اپنے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔
نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ ہی سے وابستہ ندا بلورشی کی حالیہ تحقیق کے مطابق افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران ایران نے مشرقی سرحد پر واقع اپنے پڑوسی ملک پر مکمل اثر و رسوخ کی پالیسی اپنائے رکھی۔ ایک جانب وہ کابل میں موجود حکومت کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے تھا تو دوسری جانب اس نے طالبان سے بھی تعلقات استوار کیے۔
اب جب کہ طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں تو تہران اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور مفادات کے تحفظ کے لیے طالبان کے ساتھ چلے گا۔
ان کے خیال میں ایران کو ایسا کرنے کی تین اہم وجوہات ہیں جن میں ایک اسے ایران مخالف عناصر، پناہ گزینوں اور اسمگلنگ سے تحفظ فراہم کرنا، دوسرا افغانستان میں دیگر علاقائی قوتوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش جب کہ تیسرا دریائے ہلمند کے ذریعے زیادہ پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
دوسری جانب صفدر حسن کے خیال میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام میں پشتونوں کے علاوہ دیگر سیاسی اور نسلی گروہوں جیسے ہزارہ، ازبک، تاجک کی عدم موجودگی پر ایران سمیت افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک جیسے ازبکستان، تاجکستان نے بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے طالبان قیادت سے مذاکرات شروع کرنے کا کہا تھا۔
ان کے بقول ایران نے علاقائی پس منظر میں بظاہر ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنائی ہے اور وہ اب بھارت سے دوستی کے مقابلے میں افغانستان کے اندرونی معاملات پر توجہ مرکوز رکھے گا۔ کیوں کہ اسے اس وقت افغانستان میں داعش کے ساتھ دیگر عسکریت پسند گروپوں سے متعلق بھی خدشات ہیں۔
صفدر حسن نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان بلوچ عسکریت پسندوں کی موجودگی بھی کافی اہمیت کا حامل مسئلہ رہا ہے۔ لیکن اس بارے میں پاکستان اور ایران کا سرحدی معاملات پر جوائنٹ مکینزم موجود ہے جو فعال انداز میں کام کر رہا ہے جس سے سرحدی کشیدگی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔