صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقاتی رپورٹ سے پیپلز پارٹی کے اس مئوقف کی تائید ہوتی ہے کہ اس وقت مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بے نظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کی تھی اور جائے وقوعہ سے شواہد بھی فوری طور پر مٹا دیے گئے جس کی وجہ سے تحقیقات میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ رپورٹ کے آنے کے بعد اُن افواہوں کی بھی نفی ہوئی ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں اُن کے شوہر صدر آصف علی زرداری یااُن کے خاندان کے دیگر افراد ملوث تھے۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعداُن کے خاندان کے اس میں ملوث ہونے کی افواہوں نے اس لیے جنم لیا کیوں کہ اُن کے بقول اُس وقت کی حکومت واقع کی تحقیقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی تھی۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو قتل کیس کے حوالے سے اپنی ذمے داری سے غافل نہیں اور اندرون ملک اس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
جب کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بے نظیر بھٹو کو فراہم کی جانے والی سکیورٹی پر اُٹھائے جانے والے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بلٹ پروف گاڑی کی فراہمی سمیت سابق وزیراعظم کی حفاظت کے لیے تماممکنہ اقداما ت کیے گئے تھے۔
اُدھر اسلام آباد میں اقوام متحدہ کی ایک سینیئر عہدیدار عشرت رضوی نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ تین رکنی پینل نے جو نتائج پیش کیے ہیں وہ سابق وزیر اعظم کے قتل کی مجرمانہ تحقیقات کو آگے بڑھانے کے حوالے سے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی اور ان کے مطابق اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس رپورٹ سے استفادہ کرتے ہوئے مجرمان کو انصاف کے کٹہرے میں کس طرح لاتی ہے۔
بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے بعد خودکش حملے میں ہلاک ہو گئیں تھیں اور جولائی 2009 ء میں اقوام متحدہ کی تین رکنی ٹیم نے حکومت پاکستان کی درخواست پر بے نظیر بھٹو قتل کے محرکات جاننے کے لیے اپنا کام شروع کیا تھا اور تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ گذشتہ روز نیویارک میں پیش کی۔