صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے پیر کو سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں، تاکہ امریکہ یمن میں حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال سکے۔
سلیوان سعودی عرب کا دورہ کرنے والے بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدے دار ہوں گے۔ انتظامیہ کے دو سینئر عہدیداروں کے مطابق، وہ ولی عہد سلمان جنہیں اکثر ان کے نام کے مخفف حروف، ایم بی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے، سمیت ان کے بھائی نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان سے بھی ملاقات کریں گے۔
بائیڈن نے فروری میں منظرعام پر آنے والی سی آئی اے کی اس رپورٹ کو زیادہ تر نظر انداز کر دیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی حکومت کے نقاد جمال خشوگی کے قتل کی منظوری دی تھی۔
قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے کہا ہے کہ سلیوان پیر کو ریاض کے بعد متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کریں گے۔
سلیوان ایک ایسے وقت میں دورے پر ہیں جب عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کے حالات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ ملک کے ایک اہم شہر ماریب میں لڑائی میں شدت آچکی ہے، کیونکہ ایران کے حمایت یافتہ باغی تیل سے مالامال اس شہر سے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں۔ یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ نے جولائی میں حوثیوں پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی اور بامعنی سیاسی مذاکرات جاری رکھیں۔ سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں یمن کے حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیش کش کی تھی۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نئے خصوصی ایلچی ہنس گرونڈ برگ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ یمن ایک ایسی جنگ میں الجھا ہوا ہے جس کا بظاہر ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اور یہ کہ چھ سال سے زائد عرصے سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنا آسان نہیں ہوگا۔
بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ "یمن کی جنگ میں جارحانہ کارروائیوں اور اس سے منسلک ہتھیاروں کی فروخت" کے لیے تمام امریکی حمایت ختم کر رہے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے بدترین انسانی بحران کے حل کے لیے بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کو توقع ہے کہ گرونڈ برگ کی تقرری سے تنازعے کے خاتمے کے لیے تمام فریقوں پر دباؤ ڈالنے میں مدد ملے گی۔
سلیوان کا سعودی عرب کا دورہ بھی ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بائیڈن انتظامیہ ایران جوہری معاہدے کے اختلافات کے حل کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔ سعودی اور متحدہ عرب امارات ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے خلاف ہیں۔ 2015 میں اوباما انتظامیہ کے تحت ہونے والے اس چھ ملکی معاہدےسے ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو نکال لیا تھا۔