|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی انتخابی کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد ہند بحر الکاہل خطے کے لیے نئی دہلی کے ساتھ مزید تعاون کے لیے پُر امید ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ "ہماری قوموں کے درمیان دوستی اس وقت بڑھ رہی ہے جب ہم لا محدود صلاحیت کے مشترکہ مستقبل کو ان لاک کر رہے ہیں۔"
دوسری جانب نریندر مودی نے کہا ہے کہ انہیں صدر بائیڈن کی جانب سے کال موصول ہوئی ہے۔
نریندر مودی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن کو بتایا ہے کہ بھارت اور امریکہ کی جامع عالمی شراکت داری آنے والے برسوں میں بہت سے نئے سنگِ میل طے کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول "ہماری شراکت داری انسانیت کے فائدے کے لیے عالمی بھلائی کے لیے ایک طاقت بن کر جاری رہے گی۔"
واضح رہے کہ بھارت کے عام انتخابات کے نتائج میں مودی کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے کم اکثریت کے ساتھ اقتدار برقرار رکھا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ اور بھارت نے حالیہ برسوں میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں مشترکہ خدشات کے پیشِ نظر تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔
اسی کے ساتھ ہی نئی دہلی نے یوکرین میں جنگ اور انسانی حقوق کے مسائل کے باوجود روس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے۔
صدر بائیڈن کے بیان کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن "خوشحالی اور اختراع کے فروغ، موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے، آزاد اور کھلے ہند بحرالکاہل خطے کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کی حکومت کے ساتھ اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کا منتظر ہے۔"
محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کو امریکہ اور بھارت کے تعلقات "ایک عظیم شراکت داری" ہے، حالانکہ امریکہ کو بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کے بارے میں تحفظات ہیں جنہیں وہ نئی دہلی کے ساتھ کھلے عام اٹھاتا رہے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کینیڈا اور امریکہ کی سر زمیںوں پر سکھ قوم پرستوں کے خلاف قاتلانہ حملوں نے امریکہ اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات کا امتحان لیا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی حکام نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت کے ایک اہلکار نے سکھ علیحدگی پسند اور امریکہ اور کینیڈا کے دوہری شہریت رکھنے والے گروپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ ماہ بھارت میں امریکی سفیر نے کہا تھا کہ مبینہ سازشوں میں جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے واشنگٹن بھارتی اقدامات سے اب تک مطمئن ہے۔
تاہم انہوں نے کہا تھا کہ ابھی بھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس واقع کے نتائج برآمد ہونے چاہئیں جو " امریکہ کے لیے سرخ لکیر" تھی۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے مودی پر زیادہ عوامی تنقید کرنے سے خود کو روکا ہے کیوں کہ امریکہ کو امید ہے کہ بھارت توسیع پسند چین کے خلاف مدِمقابل کا کردار ادا کرے گا۔
(اس خبر میں شامل معلومات "رائٹرز" سے لی گئی ہیں)