اس پر یقین کرنے کی "ہر وجہ" موجود ہے کہ نیتن یاہو خودکو سیاسی طور پر بچانے کے لیے غزہ کی جنگ کو طول دے رہے ہیں، یہ بات صدر بائیڈن نے ایک تازہ ترین انٹرویو میں کہی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے منگل کو شائع ہونے والے انٹرویو میں غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل اور فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تنقید کی۔
ایک ایسے وقت میں جب جنگ آٹھ ماہ کے قریب پہنچ رہی ہے، اسرائیلی رہنما کو، متضاد مطالبات کا سامنا ہے، ایک طرف بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماؤں کی طرف سے اس تنازعہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت میں نیتن یاہو کی حمایت ترک کر دیں گے اور ان کی حکومت کو ختم کر دیں گے، اگر وہ غزہ میں حماس کے کنٹرول کے آخری نشانات کو مٹائے بغیر جنگ بندی سے اتفاق کرتے ہیں۔
حماس نے منگل کو کہا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی معاہدے پر رضامند نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسرائیل مستقل جنگ بندی اور غزہ سے فوجیوں کے مکمل انخلاء کا "واضح" وعدہ نہیں کرتا۔
نیتن یاہو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی افواج حماس کے تمام عناصر کو ختم کیے بغیر غزہ سے نہیں جائیں گی۔
قطر نے بھی، جو امریکہ اور مصر کے ساتھ، قاہرہ میں حماس اسرائیل مذاکرات میں ثالثی کر رہا ہے، اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ارادوں کے بارے میں واضح موقف فراہم کرے جس کو معاہدے تک پہنچنے کے لیے اس کی پوری حکومت کی حمایت حاصل ہو۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی کی تجویز: امریکہ کا سلامتی کونسل سے حمایت پر زوربائیڈن کا انٹرویو
کچھ دن پہلے، ٹائم میگزین نے بائیڈن سے ایک انٹرویو میں،جو منگل کو شائع ہوا ہے، پوچھا کہ کیا ان کا خیال ہے کہ نیتن یاہو خود کوسیاسی طور پربچانے کے لئے جنگ کو طول دے رہے ہیں؟
بائیڈن نے جواب میں کہا، "لوگوں کے اس نتیجے پر پہنچنے کیلیے ہر وجہ موجود ہے۔"
لیکن جب منگل کو بعد میں رپورٹرز نےان سے اس تبصرے کے بارے میں پوچھا کہ آیانیتن یاہو جنگ کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں، تو بائیڈن نےبظاہر پیچھے ہٹتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا، "مجھے ایسا نہیں لگتا۔ وہ ایک سنگین مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
بائیڈن نے تسلیم کیا کہ ان کے اور نیتن یاہو کے تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 36,000 سے تجاوز کر گئی ہے، ان اعداد و شمار میں عام شہری اور جنگجو شامل ہیں۔
SEE ALSO: جنگ بڑھانا نہیں چاہتے، اگر مسلط کی گئی تو لڑیں گے: حزب اللہان میں خاص طور پر اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا جنگ کے بعد تجدید شدہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ پر حکومت کرنی چاہیے؟ جس کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنا کوئی تفصیلی منصوبہ پیش کیے بغیر اسے مسترد کر دیا ہے۔
بائیڈن نے کہا، نیتن یاہو سے میرا ایک بڑا اختلاف یہ ہے کہ غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا اسرائیلی افواج واپس اس کے (غزہ کے) اندر چلی جائیں گی؟
انہوں نے کہا،"جواب ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کارگر ثابت نیں ہوسکتا۔"
بائیڈن نے گزشتہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیلی تجویز کا اعلان کیا تھا اور اس کی عالمی حمایت پر زور دیا تھا۔ لیکن حماس نے ابھی تک اس سے اتفاق نہیں کیا ہے، اور نیتن یاہو نے اس کے بارے میں اپنا موقف ظاہر نہین کیا ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن کاجنگ بندی پر زور،"نیا دن شروع کرنے کا وقت آگیا ہے"جان کربی کی وضاحت
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ بائیڈن، ٹائم کو دیے جانے والے انٹرویو میں، نیتن یاہو کے اقدامات کے بارے میں "بہت سے ناقدین کی باتوں کا حوالہ دے رہے تھے۔" تاہم انہوں نے کہا امریکہ چاہے گا کہ اپنی سیاست اور ان کے ناقدین کی باتوں پر خود وزیر اعظم بات کریں۔
جان کربی نے کہا"ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ(بائیڈن) اور وزیر اعظم نیتن یاہو ہر چیز پر متفق نہیں ہیں، اور انہوں نے اس انٹرویو میں ایسی کچھ چیزوں کے بارے میں بات کی جن پر ان میں اتفاق نہیں ہے، جیسے کہ دو ریاستی حل پر،" یعنی اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک نو تشکیل شدہ فلسطینی ریاست۔
SEE ALSO: غزہ جنگ: ثالثوں کا اسرائیل اور حماس سے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کا مطالبہامریکہ کی تجویز کی صرتحال جس میں غزہ میں چھ ہفتوں کے لیے لڑائی روکنے اور انسانی امداد میں اضافےاور حماس کی جانب سے اسرائیل میں قید فلسطینیوں کے بدلے کچھ یرغمالوں کی رہائی کا کہا گیا ہے، منگل کو غیر یقینی رہی۔
حماس نے ابھی تک اس تجویز پر کوئی حتمی جواب نہیں دیا ہے، اسرائیلی حکام کچھ تفصیلات پر سوال اٹھا رہے ہیں، اور امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے معاہدے کی منظوری اور عمل درآمد کی حمایت کا مطالبہ کررہا ہے۔
امریکی مسودہ قرارداد میں، جسے VOA نےدیکھا ہے، حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی تجویز کو "بغیر تاخیر کے غیر مشروط طور پر" مکمل طور پر قبول کرے۔
حماس اور اسرائیل کی یہ جنگ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں 1200اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔