|
اسلام آباد -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بری تو کر دیا گیا ہے۔ لیکن کیا عمران خان اور شاہ محمود قریشی فوری رہا ہو سکتے ہیں؟ اگر ان دونوں کے کیسز کا جائزہ لیں تو ماہرین کے مطابق فی الحال دونوں کی رہائی ممکن نہیں ہے۔
تیس جنوری کو عام انتخابات سے صرف نو روز قبل عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ سزا سنانے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کئی دنوں تک رات گئے کیس کو چلاتے رہے اور 30 جنوری کو یہ سزا سنا دی گئی۔
لیکن اس سزا کے سنائے جانے کے بعد ہی بعض ماہرین کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ کمزور بنیادوں پر سنائی جانے والی یہ سزا ہائی کورٹ سے ختم ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
عمران خان کے خلاف اہم کیس: عدت میں نکاح
عمران خان کے خلاف اس وقت ایک اہم کیس عدت میں نکاح کا ہے جس کی سماعت اگرچہ مکمل ہو گئی ہے لیکن مدعی کے اعتراض پر جج نے سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنانے سے انکار کیا اور اب یہ معاملہ ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔
اس کیس میں عمران خان کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس میں اگر عمران خان کو بری کر دیا جاتا ہے تو عمران خان کو رہائی ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
لیکن اب یہ معاملہ دوبارہ سے عدالت میں ہے جو پہلے سے ریکارڈ شدہ بیانات اور گواہان کے بیانات پر انحصار کرتا ہے یا نہیں، اس بات کا فیصلہ نئے جج کریں گے۔
عدت کیس کی بازگشت امریکی محکمہ خارجہ میں
آن لائن نیوز ویب سائٹ، دا انٹرسپیٹِ کےصحافی رائن گرم نے پیر کو محکمہ خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں ترجمان سے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سائفر کیس میں بری کر دیا گیاہے۔ صحافی نے مزید کہا، اس وقت جس مقدمے میں وہ جیل میں ہیں وہ ہے اسلامی شادی کا معاملہ، تو آپ نے پہلے جارجیا کے قانون پر کہا کہ یہ جارجیا اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔تو ایسا کیوں ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ پاکستانی قانون کو بھی جارجیا کی مقننہ سے منظور کیے گئے اس قانون کی طرح نہیں دیکھتا،یا آپ کے لیے پھر یہ پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان،میتھیو ملر نے اس کے جواب میں کہا کہ میرے پاس اس کیس پر مزید کہنے کو کچھ نہیں ہے۔
ملر نے کہا، "جیسے ہم مختلف ممالک کو دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک مناسب سیاق و سباق اور حالات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، جس پر ہم کوئی رائے بناتے ہیں۔ہم نے کئی بار عمران خان پر بات کی ہے۔ان کے خلاف قانونی کارروائی قوانین اور آئین کے مطابق پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے.
امریکی صحافی ریان گرم نے اس پر کہا، لیکن کیا واقعی یہ پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے ؟ کیا ممکنہ طور پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا موقف بھی ہو سکتا ہے؟
اس پر ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ یہ ہمارا موقف ہے کہ جب آپ پاکستان کے ان قوانین کی بات کرتے ہیں اور اس کیس کی بات کرتے ہیں، تو یہ پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے، اور جو آپ کا سوال ہے، آپ نے ابھی دیکھا کہ عدالتوں نے ان کے خلاف الزامات کو خارج کر دیا ہے۔
اس کیس کے علاوہ توشہ خانہ کیس میں سنائی گئی تین سال قید کی سزا کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر رکھا ہے۔ توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اور پانچ اگست سے عمران اب تک جیل میں ہیں
عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس چل رہا ہے لیکن اب تک اس میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس کیس میں بھی بیش تر گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں اور امکان ہے کہ اس کیس کا فیصلہ بھی جلد آ سکتا ہے۔
عمران خان کو نو مئی کے حوالے سے قائم زیادہ تر کیسز میں ضمانت یا بریت مل چکی ہے۔ عمران خان کے خلاف 200 کے قریب کیسز قائم کیے گئے تھے۔ اس وجہ سے کئی کیسز میں اب بھی عدالتوں میں کارروائی جاری ہے۔
شاہ محمود قریشی کے خلاف بھی اہم معاملہ اس وقت سائفر ہی تھا جس میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے سے متعلق 50 سے زائد کیسز درج تھے جن میں زیادہ تر میں وہ بری یا پھر ضمانت پر ہیں۔
حالیہ دنوں میں لاہور میں درج سات مقدمات میں انہیں ریمانڈ پر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سائفر کیس میں بری ہونے کے باوجود شاہ محمود قریشی فی الحال جیل سے باہر نہیں آ سکتے۔
سائفر کیس تھا کیا؟
27 مارچ کی شام اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے ایک جلسہ میں عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے عوام کے سامنے ایک کاغذ لہرایا تھا جس میں ان کے مطابق ملک کی منتخب حکومت کے خلاف سازش کی گئی اور ایک ملک نے ان کی حکومت گرانے کی کوشش کی۔
عمران خان نے اس وقت امریکہ کا نام نہیں لیا تھا لیکن بعد میں انٹرویوز میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر اسد مجید کو امریکہ میں دھمکی دی تھی کہ اگر عمران خان کی حکومت ختم نہ کی گئی تو پاکستان کے لیے مشکل صورتِ حال ہو گی۔ اس بارے میں امریکہ کی طرف سے متعدد بار ان الزامات کی تردید کی گئی۔ بعد میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد بھی عمران خان تواتر سے یہ الزامات عائد کرتے رہے۔
اس تمام صورتِ حال پر ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر ایف آئی اے میں انکوائری کے بعد باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔
اس کیس میں ایف آئی اے نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔
پہلی فرد جرم 23 اکتوبر کو عائد ہوئی تو پی ٹی آئی نے ہائی کورٹ میں طریقہ کار چیلنج کر دیا جس کے بعد ہائی کورٹ نے ازسرنو ٹرائل کے لیے دوبارہ کیس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا۔ دوبارہ فرد جرم 13 دسمبر کو عائد ہوئی جس کے بعد گواہوں کے بیانات اور جرح کا عمل چھ ہفتوں میں مکمل ہوا۔
عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔
کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد 10 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے۔ لیکن بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کی بنیاد پر اس کیس کی تمام کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اس کیس کی سماعت مکمل ہوئی۔
عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 30 جنوری کو فیصلہ سنایا جو پیر کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
فورم