|
ویب ڈیسک -- امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ٹیلی فونک رابطے میں غزہ جنگ سے متعلق تبادلۂ خیال کیا ہے، تاہم وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر جنگ بندی ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے "غزہ میں فوری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ یرغمالوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے جاری مذاکرات کا جائزہ لیا۔"
واضح رہے کہ مشرقِ وسطی میں جاری لڑائی کو روکنے کے طریقوں پر کئی ماہ سے مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بائیڈن نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران 17 دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنے معاہدے کا ذکر کیا جس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 100 سے زائد یرغمالوں کو رہا کر کے جنگ بندی پر رضامند ہو جائے۔
امریکہ لڑائی میں چھ ہفتے کے وقفے پر بھی زور دے رہا ہے۔
SEE ALSO: کیا غزہ ثالثی سے دستبردار ہو نے کے قطری انتباہ کا مقصد امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا؟دوسری طرف حماس نے اسرائیل سے جنگ ختم کرنے اور غزہ سے نکلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم نیتن یاہو نے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے اور جنوبی غزہ کے شہر رفح پر زمینی حملے کا اعلان کر رکھا ہے۔
رفح میں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی فضائی حملوں سے محفوظ رہنے کی امید میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بائیڈن نے نیتن یاہو پر ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ امریکہ رفح پر اسرائیلی زمینی حملے کی مخالفت کرتا ہے کیوں کہ اس سے وہاں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے۔
دونوں رہنماؤں نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل میں اضافے پر بھی تبادلۂ خیال کیا جس میں اس ہفتے شروع ہونے والے نئے شمالی راستوں کے ذریعے امداد پہنچانا بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: جنگ بندی تجاویز پر اسرائیل کے جواب کا جائزہ لے رہے ہیں: حماسوائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے ساحل پر امریکہ کی طرف سے امدادی ٹرکوں کے لیے ایک عارضی بندرگاہ تین ہفتوں میں مکمل ہو سکتی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا دورۂ مشرقِ وسطیٰ
دریں اثنا امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن پیر سے بدھ تک سعودی عرب، اردن اور اسرائیل میں علاقائی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلنکن امریکی نقطۂ نظر پر زور دیں گے کہ حماس ہی جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
بیان کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ دورے کے دوران اسرائیل کے لیے سلامتی کی ضمانتوں کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی بات چیت کریں گے۔
SEE ALSO: کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ یکجہتی کیمپ جاری رکھنے کا اعلان، مظاہرے کئی جامعات تک پھیل گئےمحکمہ خارجہ کے مطابق بلنکن سعودی عرب میں خلیج تعاون کونسل کے ایک وزارتی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے تاکہ علاقائی سلامتی پر ہم آہنگی کو آگے بڑھایا جا سکے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل پر حملے میں 1,200 کے قریب لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ جنگجو تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ مغویوں میں سے تقریباً 100 کو نومبر کے آخر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں میں حماس کے ہزاروں عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: بائیڈن اور 17 عالمی رہنماؤں کا حماس سے یرغمالوں کی رہائی کا مطالبہمشرق وسطی کے لیے امریکی ملٹری کمانڈ سینٹ کام نے ایک بیان میں کہا کہ اتوار کو بھی امریکی سینٹرل کمانڈ اور رائل اردن کی فضائیہ نے شمالی غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے فضائی آپریشنز کیے۔
اسرائیل نے اتوار کو غزہ میں مزید فضائی حملے اور گولہ باری بھی کی۔
اکتوبر کے حملے کے بعد سے حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے دو افراد کی ویڈیو نے اسرائیل میں نئے غم و غصے کو جنم دیا ہے جہاں مظاہرین نے حکومت پر معاہدے تک پہنچنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔
غزہ میں انسانی بحران کی عالمی مخالفت بھی بڑھ رہی ہے، عالمی رہنماؤں اور امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملے سے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوں گی۔