امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ 2024 میں دوبارہ الیکشن لڑںے یا نہ لڑنے سے متعلق اہلِ خانہ کے ساتھ مشاورت کریں گے۔
جو بائیڈن ان دنوں ورجن آئی لینڈز میں چھٹیاں گزار رہے ہیں اور وہ ان چھٹیوں کے دوران آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق اہلِ خانہ سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس اور ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ بائیڈن دوبارہ انتخاب لڑیں گےلیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کر پائیں گے؟
اس سوال کو جواب جاننے کے لیے ایک مثالی جگہ دارالحکومت واشنگٹن سے جڑی ریاست میری لینڈ کی پرنس جارج کاؤنٹی ہے ، جہاں بائیڈن کو 2020 کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ یعنی 89 فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
پرنس جارج کاؤنٹی کے چار لاکھ اہل ووٹروں میں سے صرف ایک چوتھائی عام طور پر بڑے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں۔
ووٹ ڈالنے کی شرح سے قطع نظر کاؤنٹی بھر میں مختلف پوزیشنز کےلیے ہونے والے عام انتخابات میں نتیجہ متوقع ہو تا ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی افریقی امریکی اکثریتی آبادی کی کاؤنٹی میں ڈیموکریٹس کی جیت تقریباً یقینی ہو تی ہے۔
اس کاؤنٹی کے ایگزیکٹو، کاؤنٹی کونسل کے 11 ممبران، شیرف، عدالت کا کلرک اور ریاستی جنرل اسمبلی میں کاؤنٹی ہولڈنگ آفس کے تقریباً دو درجن قانون ساز سبھی ڈیموکریٹس ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کاؤنٹی ڈیموکریٹک سینٹرل کمیٹی کے چیئر مین کینٹ رابرسن کہتےہیں کہ ان کے خیال میں ایسا کوئی ری پبلکن نہیں ہے جس کی پرنس جارج کاؤنٹی میں جیت ممکن دکھائی دیتی ہو۔
پرنس جارج کاؤنٹی میں ری پبلکن سینٹرل کمیٹی کے نائب سربراہ جم واس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
جم واس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی زندگی میں تو ایسا ممکن ہونا دکھائی نہیں دیتا، وہ ستر برس کے ہیں اور وہ جب سے یہاں مقیم ہیں ریاست میری لینڈ اور یقیناً پرنس جارج کاونٹی کا ڈیموکریٹ کی طرف جھکاؤ بڑھ گیا ہے۔
تاہم واس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کاؤنٹی میں ری پبلکنز کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنا چھوڑ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی وقت ان ووٹوں سے فرق پڑے گا۔
بائیڈن کی عمر کا مسئلہ
دونوں جماعتوں کے بہت سے ووٹروں کے لیے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ بائیڈن، جو پہلے سے ہی سب سے معمر امریکی صدر ہیں، اگر وہ دوسری مدت پوری کرتے ہیں تو ان کی عمر 86 سال ہوگی لیکن اس کاؤنٹی میں جہاں وہ 2016 کے انتخابات میں سرفہرست رہے، کیا وہ 2024 میں تمام پرائمری الیکشن چیلنجرز کو شکست دے سکیں گے؟
اس تناظر میں کاؤنٹی ڈیموکریٹک سینٹرل کمیٹی کے چیئر مین رابرسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "مجھے یقین نہیں ہے کہ انہیں مکمل حمایت حاصل ہے۔"
SEE ALSO: ٹرمپ کی بائیڈن پر تنقید، 2024 کا صدارتی الیکشن لڑنے کا عندیہ"اگر ہم بائیڈن کی کم اپروول ریٹنگ یعنی عوام میں ان کے کارکردگی سے متعلق تاثر کو دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا کہ یہ صرف ری پبلکنز محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ ڈیموکریٹس بھی ہیں اور اس بات سے قطع نظر کہ میں صدر کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہوں اور وہ کیسے کامیاب ہو رہے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ لوگ اس بات سے پریشان ہیں کہ شاید وہ مزید چار سال تک اپنے عہدے پر برقرار نہ رہیں۔"
رابرسن کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن ملک کو ٹرانزیشن کے مرحلے تک لانے میں کردار ادا کر چکے ہیں۔
ملک کے دوسرے ڈیموکریٹک اکثریتی اضلاع کی طرح پرنس جارج کاؤنٹی کے ڈیموکریٹس بھی ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے ۔
ڈیموکریٹس انفرادی طور پر مختلف لیبل رکھتے ہیں، جیساکہ ترقی پسند، اعتدال پسند، لبرل یا قدامت پسند۔
سن 2020 میں یہ سب ڈیموکریٹس ٹرمپ کو دوسری مدت نہ دینے کی غرض سے ایک جگہ اکٹھے ہوئے تھے۔
رابرسن نے کہا کہ "ہم سب اپنے تمام اختلافات کو دور کرنے اور مل کر کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان میں سے کچھ لوگ کیا سوچتے ہیں کہ ایک مختلف امیدوار کے آگے بڑھنے کے لیے قیادت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بات متاثر کرتی ہے کہ لوگ کیسے محسوس کرتے ہیں کہ صدر بائیڈن کو عہدے پر رہنا چاہیے یا نہیں۔"
ممکنہ دعویدار
دوسری مدت کے حصول کے خواہش مند امریکی صدور کو شاذ و نادر ہی پارٹی سے سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن بائیڈن کی عمر اس نظیر کو ایک طرف رکھ سکتی ہے۔
جب ری پبلکن واس سے پوچھا گیا کہ وہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کا جائزہ لینے سے کیا سوچتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ریاست کیلی فورنیا کے 55 سالہ گورنر گیون نیوزوم شاید پرنس جارج کے ڈیموکریٹس کے لیے بائیڈن سے زیادہ قابل قبول ہوں۔
SEE ALSO: عوام جیت گئے، خصوصی مفادات ہار گئے،صدر بائیڈنلیکن گزشتہ ماہ نیوزوم نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ وہ بائیڈن کو چیلنج کریں گے۔
نیوزوم نے پولیٹیکو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بائیڈن نے نہ صرف ٹرمپ کو ایک بار شکست دی بلکہ وہ سابق صدر کو دوبارہ ہرا سکتے ہیں۔
"مجھے امید ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور میں ان کی حمایت کروں گا۔"
اگر بائیڈن دوبارہ الیکشن میں حصہ نہیں لیتے یا صحت کے کسی مسئلے کی وجہ سےانتخابی دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں، تو نیوزوم کو نائب صدر کاملا ہیرس کے ساتھ ایک سرکردہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جن کی عمر 58 برس ہے۔
نیوزوم، 81 سالہ سینیٹر برنی سینڈرز اور ٹرانسپورٹیشن کے وزیر نسبتاً کم عمر 40 سالہ پیٹ بٹگیگ، تینوں 2020 الیکشن میں ڈیموکریٹک پرائمری کے دعویدار تھے۔
ان حالات پر نظر ڈالتے ہوئے واسن 1992 کو یاد کرتے ہیں کہ جب بل کلنٹن نامی آرکنساس کے ایک غیر معروف گورنر نے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے باوجود سیاسی پنڈتوں نے نیویارک کے گورنر ماریو کوومو کی پیش گوئی کی تھی کہ وہ اس وقت کے ری پبلکن صدر جارج ایچ ڈبلیو کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کوومو کی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی جب کہ بل کلنٹن نے عام انتخابات میں بش کو شکست دی۔
Your browser doesn’t support HTML5
واس کہتے ہیں کہ گیون نیوزوم کو انتخابی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے یا وہ یہ موقع ضائع کردیں گے۔اسی طرح سابق نائب صدر مائیک پینس اور سابق وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کو بھی 2024 کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے پرائمری مقابلوں میں حصہ لینا چاہیے۔
واس کا کہنا ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ "سابق صدر ٹرمپ ابھی بہت سے پیسے اور توجہ حاصل کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، پینس اور پومپیو کو انتخابی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے۔"
ٹرمپ کے دیگر ممکنہ بنیادی چیلنجرز میں ریاست فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس، ریاست ورجینیا کے گورنر گلین ینگکن، ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم، ریاست جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلی، ریاست جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر ٹم سکاٹ اور ریاست وایومنگ کی نمائندہ اور سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحب زادی لز چینی شامل ہیں۔
اعتدال پسند ری پبلکنز میں ریاست نیو ہیمپشائر کے گورنر کرس سنونو اور ریاست میری لینڈ کے گورنر لیری ہوگن بھی شامل ہیں۔
پارٹی کی نامزدگی حاصل نہ کرنے والے واحد صدر
امریکی تاریخ میں واحد منتخب صدر جنہیں دوسری مدت کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل نہ ہو سکی وہ 1856 میں ڈیموکریٹ فرینکلن پیئرس تھے۔
زیادہ شراب نوشی کرنے والے پیئرس نے امریکہ میں غلامی کی حمایت کی تھی کیوں کہ اس وقت ملک اس معاملے پر خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
پارٹی نے پیئرس کے بجائے جیمز بکانن کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا، جو سابق وزیرِ خارجہ تھے ۔
اس کے علاوہ وہ پیئرس کے دور میں برطانیہ میں امریکہ کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے اور اس طرح غلامی کی متنازع بحث میں شامل نہیں تھے۔
بکانن نے، جو خود بھی غلامی ختم کرنے کے حامی نہیں تھے، عام انتخابات میں وِگ اور ری پبلکن پارٹیوں سےتعلق رکھنے والے دو امیدواروں کا مقابلہ کیا۔
باوجود اس کے کہ انہوں نے کوئی فعال مہم نہیں چلائی، بکانن نے میری لینڈ کے علاوہ ہر غلام ریاست میں کامیابی حاصل کی۔
مورخین عام طور پر پیئرس اور بوکانن کو امریکہ کے بدترین صدور میں شمار کرتے ہیں۔