|
ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیلی صدر نیتن یاہو تمام زندہ یرغمالوں کی واپسی اور ہلاک ہونے والوں کی باقیات واپسی کرنےپر حماس سے کوئی معاہدہ طے نہ ہونے کی صورت میں رمضان میں رفح پر ایک بڑی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں، سینیٹ میں امریکی صدر جو بائیڈن کے کے ممتاز اتحادی مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کے مصائب کم کرنے کے لیے براہ راست اقدام کرے۔
وہ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جنگ کا اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ان کی فوجی امداد میں کٹوتی کی جانی چاہیے۔
کانگریس میں بائیڈن کے قریب ترین ساتھی کرس کونز تک کہہ رہے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کے جنگ کے طریقہ کار پر مزید سخت ردعمل ظاہر کیا جائے۔
اسرائیل کو کانگریس میں ابھی تک دو جماعتی حمایت حاصل ہے اور مزید اہم ڈیموکریٹس کی جانب سے دباؤ کے باوجود یہ امکان یقینی نہیں دکھائی دیتا کہ اس کی فوجی امداد میں کمی کی جائے گی۔ تاہم یہ کشیدگیاں جمعرات کو اس وقت سامنے آئیں گی جب بائیڈن اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اس تنازعے کے بارے میں بات کریں گے ۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی مذاکرات پیش رفت کے بغیر ختم ،رمضان میں رفح آپریشن کا خطرہاسرائیل کی فوجی امداد بند کی جائے
صرف گزشتہ چند روز میں بائیڈن کی آبائی ریاست ڈیلاوئیر کے سینیٹر کونز نے امریکہ پر زور دیا کہ اگر نیتن یاہو جنوبی غزہ کے شہر میں پناہ لینے والے دس لاکھ سے زیادہ شہریوں کی حفاظت کے لیے اہم اقدامات کیے بغیر وہاں حملے کی اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہیں تو امریکہ کو ان کی فوجی امداد ختم کر دینی چاہیے۔
کونز نے غزہ میں امداد کی ناکام تقسیم کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بعد CNN پر کہا کہ اسرائیل کے لیے موجودہ سطح پر فوجی امداد جاری رکھنا اس صورت میں ناقابل عمل ہو جاتا ہے جب اسرائیل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے۔
کونز نے امداد کی ناکام تقسیم کے دوران ہلاکتوں کے بعد CNN کوبتایا کہ اب جب اسرائیل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے تو اس کے لیے موجودہ سطح کی امریکی فوجی مدد جاری رکھنا "ناقابل عمل ہو جاتا ہے۔"
SEE ALSO: اسرائیل کا دو ریاستی حل مسترد کرنا قابلِ قبول نہیں، گوتریسواشنگٹن سے تعلق رکھنے والی سینیٹر پیٹی مرے نے چیمبر میں ایک پرجوش تقریر میں کہا، اسرائیل کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے غزہ میں جو ہلاکتیں کی ہیں، جو تباہی مچائی ہے، وہ جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ نہ تو امریکہ کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اس سے اسرائیل زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔
قانون سازوں نے سال کے آغاز سے ہی انتظامیہ کو کم از کم نصف درجن خطوط لکھے ہیں جن میں اسرائیل کے لیے جنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی پر زور دیا گیا ہے۔
بائیڈن سے مزید مطالبے اور اپیلیں
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جیک ریڈ نے بائیڈن سے اپیل کی کہ وہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کے لیے امریکی بحریہ کو متعین کریں۔
انتظامیہ نے اس ہفتے کہا ہےکہ وہ سینیٹر ریڈ کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز پر بڑے فعال طریقے سے پر غور کر رہی ہے کہ انسانی ہمدردی کی امداد کے لیے کوئی سمندری راستہ کھولا جائے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بیشتر امداد کی ترسیل پر پابندیوں کے پیش نظر امریکہ نے گزشتہ ہفتے غزہ کے شہریوں کے لیے فضائی ذریعے سے امداد پہنچائی۔
SEE ALSO: غزہ میں رہنے والوں کے لئے خوراک کی امداد، امریکی طیاروں نے پارسل پیراشوٹس کے ساتھ باندھ کر گرائےحوثیوں پر امریکی حملوں پر اختلافات
غزہ کی جنگ ہی مشرق وسطیٰ کا وہ واحد مسئلہ نہیں ہے جو ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اختلافات پیدا کررہا ہے۔ کچھ ڈیمو کریٹس انتظامیہ پر یہ دباؤ ڈالنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ یمن میں حوثیوں پر فوجی حملے جاری رکھنے کے لیے کانگریس کی اجازت لیں تاکہ حکام پر جنگ چھیڑنے کے اختیارات پر ممکنہ بحث کی راہ ہموار ہو سکے۔
بائیڈن کے اتحادی، سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ حوثیوں پر امریکی حملے بحیرہ احمر پر ان کے حملوں کو نہیں روک سکیں گے۔ اور سینیٹ میں سب سے سینئیر ڈیموکریٹ رکن نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا راستہ بدلے۔
SEE ALSO: بحیرہ احمر میں حوثی حملے، سامان پہنچانے کا متبادل زمینی راستہ کیا ہو سکتا ہے؟کانگریس کے ڈیمو کریٹس کا بائیڈن پر تنقید سے احتراز کیوں؟
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی اور ڈیمو کریٹک کاکس مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ کے تنازع میں امریکہ کو کسی عمل دخل سے روکے ہوئے ہیں۔
ایسا غزہ میں اسرائیل کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی حمایت پر ملکی سطح پر خاص طور پر مسلمانوں اور امریکی ووٹروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مخالفت اور اس کے باوجود ہوا ہےکہ نیتن یاہو نے بظاہر امریکہ کے ان مطالبوں کو نظر انداز کیا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کے لیے امداد کی ترسیل بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
کانگریس کے ڈیمو کریٹس نہیں چاہتے کہ انہیں غزہ کے تنازعے سے نمٹنے میں ڈیموکریٹک صدر کو چیلنج کرتے ہوئے دیکھا جائے کیوں کہ بائیڈن پر کوئی تنقید سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دوبارہ الیکشن لڑنے کی ان کی مہم میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔
میسا چوسٹس کی ڈیمو کریٹ سینیٹر ایلزبیتھ وارن نے کہا کہ کانگریس میں بائیڈن کے اتحادی انتظامیہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کا جنگ کا طریقہ کار امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کا اسرائیل پر رمضان میں مسلمانوں کو الاقصیٰ میں عبادت کی اجازت دینے پر زورمشرق وسطیٰ پر نئی قانون سازی میں تاخیر کیوں؟
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے جنگ شروع ہونے کے آغاز سے لے کر اب تک خطے سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں کی ہے۔ کانگریس کے دو مشیروں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست پر اے پی کو بتایا کہ میری لینڈ کے ڈیموکریٹک سینیٹر بین کارڈین نے گزشتہ سال کمیٹی کو بتایا تھا کہ جب تک غزہ میں جنگ ختم نہیں ہو جاتی مشرق وسطیٰ پر کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔
اس گفتگو سے واقف کانگریس کے ایک اور مشیر نے کہا کہ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں شرو ع ہونے والی جنگ کے اثرات کے پیش نظر کارڈین نے فوری طور پر قانون سازی کے ایسےکسی بھی اقدام میں احتیاط سے کام لینے پر زور دیا ہے جس سے اسرائیل کی زمینی کوشش پر منفی اثر پڑے۔
ورجینیا کے ایک ڈیمو کریٹ رکن کین نے کہا کہ، مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ میں امریکہ کی شمولیت اس بات کی عکاسی ہو گی کہ ہم نے گزشتہ 25 سال میں در حقیقت کچھ نہیں سیکھا ہے۔
حوثیوں پر امریکی حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اس قسم کا اقدام ہے جو ہمیں ایک جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔