|
جو بائیڈن کے اتحادیوں کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ وہ جمعرات کی شب ہونے والے صدارتی مباحثے میں توانا نظر آئیں تاکہ 81 سالہ ڈیموکریٹ امیدوار کی جسمانی صحت اور ذہنی صلاحیت سے متعلق اٹھنے والے سوالات کی شدت میں کمی آئے۔
لیکن امریکی سیاست کے سب سے بڑے اسٹیج پر بائیڈن ان معتدل توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔
جب 90 منٹ طویل مباحثے کا اختتام ہوا تو صدر کے اتحادی، پارٹی کے حکمت کار اور ان کے عملے اور ووٹرز ان کی کارکردگی سے متعلق گھبراہٹ کا شکار تھے۔ مباحثے میں بائیڈن بار بار اٹکتے اور رکتے رہے اور ان کا اندازِ گفتگو بھی ایسا تھا جسے سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔
نجی اور عام گفتگو میں ڈیموکریٹس نے یہ سوال بھی اٹھائے کہ کیا پارٹی ٹرمپ کے مقابلے میں اپنا امیدوار تبدیل کرسکتی ہے یا اسے ایسا کرنا چاہیے۔
سابق ڈیموکریٹک سینیٹر کلیئر مکیسکل نے ایم ایس این بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اکیلا نہیں ہوں جس کا دل ٹوٹا ہے۔ یہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو آج کی شب جو بائیڈن کے لیے انتہائی پریشان ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پہلے مباحثے کے بائیڈن کو ہونے والا نقصان مستقل ہوگا؟ کئی ووٹرز کو ابھی الیکشن سے متعلق اپنا ذہن بنانا ہے کیوں کہ اب بھی اس میں چار ماہ باقی ہیں۔
SEE ALSO: بائیڈن اور ٹرمپ کے مباحثے میں کن بڑے مسائل پر بحث ہوئی؟
صدر اور ان کے ساتھیوں کے پاس کروڑوں ڈالر ہیں جو انہیں تشہیر اور سوئنگ اسٹیٹس میں مہم کے لیے خرچ کرنے ہیں۔
پھر ماضی میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں جب کوئی امیدوار مباحثے میں ابتدائی خراب پرفارمنس کے بعد دوبارہ رائے عامہ میں اپنی حمایت بحال کر لیتا ہے۔
اس میں 2012 کی مہم کے دوران براک اوباما اور ان کے مقابل مٹ رومنی کے درمیان مباحثے کی مثال بھی دی جاتی ہے جب اوبامہ اپنے ری پبلکن مدِ مقابل کے ساتھ برابر کا مقابلہ نہیں کر پائے تھے۔
بائیڈن کی 2024 کے الیکشن کے لیے مہم اس بنیاد پر آگے بڑھائی جا رہی ہے کہ ووٹر آخرِ کار 81 سالہ کہنہ مشق سیاست دان کی حمایت کریں گے۔ اس وقت ایسے ووٹرز کی بڑی تعداد بھی ہے جو دونوں امیدواروں کے مقابلے کے بارے میں پُرجوش نہیں۔
تاہم ان حالات کے باوجود بائیڈن کی ٹیم کا اصرار ہے کہ وہ چار سال پہلے کی طرح اب بھی ٹرمپ کو شکست دے سکتے ہیں۔
وہ بہت پہلے سے اس کی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی بے ہنگم قیادت سے متعلق لوگوں کو بار بار یاد دہانی کراکے بائیڈن باآسانی سیاسی مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن مباحثے میں بائیڈن کی کار کردگی کے بعد یہ اعتماد بھی متزلزل ہوا ہے۔
SEE ALSO: جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدارتی مباحثے میں آمنے سامنے
مباحثہ ختم ہونے کے بعد نائب صدر کاملا ہیرس نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک سست آغاز ہے۔ یہ سب پر واضح ہے۔ میں اس نکتے پر بحث نہیں کروں گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا ’’میں نومبر میں انتخاب کی بات کر رہی ہوں۔ میں بات کر رہی ہوں ہماری اجتماعی زندگی کے اہم ترین الیکشن کی۔‘‘
بائیڈن کے نمائندے اٹلانٹا میں بنائے گئے سپن رومز میں بھی سست روی کے ساتھ آئے اور انہوں نے پریس کے سوالوں کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔
اس کے برخلاف وہ مباحثے کے دوران ٹرمپ کی غلط بیانی کی طویل فہرست پر زور دیتے رہے۔ دیگر باتوں کے ساتھ، ٹرمپ نے چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں سے واضح اظہارِ لاتعلقی نہیں کیا۔
کیلی فورنیا کے گورنر اور مستقبل کے ممکنہ صدارتی امیدوار گیون نیوسم نے ڈیموکریٹس کو مشورہ دیا کہ انہیں ابھی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
نیوسم کو بائیڈن کے نمایاں ترین نمائندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایم ایس این بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے صدر کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔ ہمیں صرف ایک کارکردگی کی وجہ سے پیٹھ نہیں موڑنی چاہیے۔ کون سی پارٹی ایسا کرتی ہے؟
تاہم اب بھی ڈیموکریٹس میں گھبراہٹ کے آثار ہیں اور وہ بائیڈن کا متبادل میدان میں اتارنے کے لیے پارٹی کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے بعض عہدے داروں نے سوشل میڈیا پر اوبامہ کی صدارتی مہم میں مشیر رہنے والے روی گپتا کی ایک پوسٹ کی بھی نشان دہی کی ہے۔
روی گپتا اس پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ "میں جانتا ہوں سبھی ڈیموکریٹ اس وقت میسجز کر رہے ہیں یہ اچھی بات نہیں۔" جو کہنا ہے صاف صاف کہیں اور سلیکشن کا عمل شروع کرنے کے لیے کنوینشن کی تیاری شروع کریں۔ میں ٹرمپ کے مقابلے میں کسی کو بھی ووٹ دینے کے لیے تیار ہوں لیکن یہ خود کُشی کے مترادف ہے۔
اس مرحلے پر بائیڈن کی جگہ ان کے تعاون کے بغیر کسی اور کو امیدوار بنانا اگرچہ ناممکن نہ سہی تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے قواعد کے اعتبار سے مشکل ضرور ہے۔
صدر ریاستی پرائمریز میں ڈیموکریٹک مندوبین کی بھاری اکثریت سے حمایت حاصل کرچکے ہیں۔
اس دوران ری پبلکن بائیڈن کی مباحثے میں پرفارمنس کے بعد بھی اس تاثر کو مسترد کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کے مقابلے کے لیے بائیڈن کی جگہ کسی اور کو آزمایا جائے گا۔
سابق صدر ٹرمپ کی مہم کے سینیئر مشیر کرس لاسیویٹا نے طنزیہ انداز میں پوسٹ کیا ہے کہ ایکس پر بہت سے سیاسی ماہرین ہیں اور آپ ان کی جانب سے بہت کچھ سنیں گے کیوں کہ یہ کسی نہ کسی کی مہم چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ایک ہی صورت ہے کہ جو بائیڈن رضاکارانہ طور پر خود ہی دست بردار ہوجائیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔
بائیڈن اور ٹرمپ کے اگلے مباحثے میں 75 دن باقی ہے۔ البتہ جمعرات کو ہونے والا مباحثہ کئی ووٹرز کے دماغ پر کافی دیر تک نقش رہے گا۔
اس خبر کا مواد 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔